ETV Bharat / bharat

کورونا کی وبا کے روزگار پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ملک کی تالہ بندی سے ہونے والا نقصان، کورونا کی وبا کے لمبی دیر تک رہنے کی صورت میں ایک مستقل خسارہ بن سکتا ہے۔

what will be the impact of coronavirus on the world economy
کورونا کی وبا کے روزگار پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
author img

By

Published : Mar 23, 2020, 7:22 PM IST

کورونا وائرس کا دھچکہ عالمی معیشت پر ایک شدید چوٹ ہے بلکہ اسے کساد بازاری کی جانب ڈھکیل رہی ہے۔ یہ ایک ایسا دھچکہ ہے کہ جس کا علاج بھی معیشت کا قاتل ہے کیونکہ دنیا کو گھیر چکی وبا کو قابو کرنے کے لیے سب کچھ بند کرنا (لاک ڈاون) ایک مجبوری ہے۔ بھارت بھی اس مرحلے پر پہنچا ہے کہ جہاں اس نے اپنے ایک ارب 30 کروڑ لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کے لیے کہا ہے تاکہ وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے اور ان شہریوں کی حفاظت ممکن ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہوائی اور زمینی سفر، تفریح و دیگر کئی سرگرمیوں اور خدمات پر پہلے ہی پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔

کورونا وائرس کا دھچکہ بُرا تو ہے ہی لیکن یہ خصوصی طور پر ایک بُرے وقت میں لگا ہے کیونکہ معیشت پہلے ہی لگاتار تین برس سے سُست روی کا شکار تھی۔ ملک کا مالی نظام کمزور اور خطرے سے دوچار تھا۔ سبھی شعبے بشمول سرکاری، نجی، غیر مالی اور گھریلو، قرضے کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر کاروبار کے بند رہنے کے معاشی اخراجات بہت بھاری اور نا قابلِ تصور ہیں۔ یہ اندازہ لگانا معقول ہے کہ موجودہ حالات،گہرے اثرات رکھنے کے باوجود، عارضی ہیں اور اگر یہ (حالات) فوری طور قابو ہوگئے تو ہماری اس کساد بازاری (ریسیشن) سے، جو ایک مہلک بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکار کی خود پیدا کردہ ہے۔ کامیاب ابھرنے کے بڑے امکانات ہیں لیکن اگر وبا کی مدت لمبی ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ بیشتر سرگرمیاں اور خدمات بند رکھنا پڑیں تو اقتصادی نقصان نہ صرف بہت زیادہ ہوگا بلکہ کچھ نقصان وقتی ہونے کے بجائے دائمی ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ سب نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او)کی ان رپورٹز کے علاوہ ہے کہ جن کے مطابق بھارت میں دو برس قبل بے روزگاری 45 برس میں سب سے زیادہ تھی حالانکہ سرکاری طور ان رپورٹز کو قبول نہیں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ پریشانیوں کی وجہ سے بے روزگاری کی یہ صورتحال اور زیادہ بدتر ہو جائے گی۔

مختلف صنعتوں، کاروبار اور متعدد خدمات کی بندش اور اس کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کی مانگ میں گراوٹ روزگار کے لیے دہری پریشانی ہے۔ بدقسمتی سے بھارت اس حوالے سے خطرات سے دوچار ہے۔ ملک کے روزگار کا دو پانچواں حصہ غیر رسمی یا بے ضابطہ ہے جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد (مثلاً گھریلو نوکری، یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے وغیرہ) تحریری معاہدوں کے بغیر کام پر ہے۔ خود روزگار کمانے والوں میں کم آمدنی کا کام کرنے والوں (جیسے پھیری والے، پرچون فروش،مرمت کا کام کرنے والے اور دیگر چھوٹی خدمات فراہم کرنے والے)کی خاصی تعداد شامل ہے جبکہ خدمات (سروسز) ملک کی مجموعی پیداوار کا 54 فیصد ہیں۔ اس طرح کے کام پر تالہ بندی کا بھاری اثر ہوتا ہے۔ بالخصوص یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کا انحصار ہی یومیہ اُجرت اور نقدی کے بہاؤ پر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جہاں یہ معاملہ ان لوگوں کے ساتھ بھی ہے کہ جو معاہدے کی بنیاد پر ملازمت کرتے ہیں۔ چناچہ ملک میں بے شمار لوگوں کی ملازمت ایسے کاروباروں کے ساتھ جڑی ہے کہ جو خود بھی فطری طور بڑے کمزور ہیں۔

ان وجوہات کے لیے کووِڈ 19 یا کورونا وائرس سے لڑائی روزگار پر منفی اور شدید اثرات مرتب کرتی ہے اور اس صورتحال سے فوری طور یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں اور کم آمدنی والے شعبے متاثر ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کمپنی ان حالات میں معمول کی سرگرمیوں کی جلد بحالی کی امید سے ابھی ملازمین کی چھٹی نہ کریں لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ تنخواہوں میں کٹوتی بھی نہیں ہوگی۔ اگر فروختگی،محصولات اور نقدی کے بہاؤ کا کوئی بحران آیا تو اس کا راست اثر اُجرتوں اور تنخواہوں پر پڑے گا اور اگر رکاوٹیں طویل ہوگئیں تو نوکریوں کا منظر بڑا سنگین ہو جائے گا۔ فی الوقت جو عارضی طور نوکریاں چلی جائیں گی اور مشاہروں،تنخواہوں اور کمائی میں کٹوتی ہوگی، وہ آگے چل کر روزگار میں دائمی گراوٹ کی شکل میں بدل سکتی ہے۔ وہ اس لیے کیونکہ کمزور یا زیادہ خطرے سے دوچار فرمز اور کاروباری اداروں میں نقدی کے بہاؤ کے کافی دیر تک رہنے والے بحران کو برداشت کرنے کی کم سکت ہوتی ہے جو انہیں دیوالیہ پن،کاروبار بند کرنے، (واجب االادا کی) نا دہندگی اور کام میں کمی کی جانب لیتا ہے جو بھی مختلف فرمز کے انفرادی مسائل ہوں۔ اس سلسلے میں ابتدائی حالات بڑے اہم ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے اگر تالہ بندی نے طول پکڑا تو مودہ سُست روی مستقبل میں نوکریوں کے حوالے سے مایوسی کی پیش گوئی کرتی ہے۔

لہذا اگر اس بہترین منظر کا تصور کریں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جاری تالہ بندی مختصر ترین ہوگی تو بھی، نوکریوں کے حوالے سے حالات سنگین ہیں اور پھر اس سے بازار میں طلب پر منفی دباؤ پڑتا ہے حالانکہ صارفین کی طرف سے مصنوعات کی مانگ، دونوں شہری اور دیہی علاقوں میں پہلے ہی سُست روی کا شکار تھی۔ صورتحال بہت تیزی سے بدل رہی ہے جو معیشتی ماحول پر غیر یقینیت کے سائے ڈالتی ہے۔ لیکن روزگار، تنخواہوں اور کمائی میں عارضی گراوٹ کے اشارے واضح ہو چکے ہیں۔ اس سب سے مالیاتی ردِ عمل کی فوری ضرورت اجاگر ہوتی ہے کیونکہ مالیاتی اثرات ان چیزوں پر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں کہ جو شرحِ سود یا کریڈت چینلز کے ساتھ جُڑی ہوئی نہ ہوں۔

کورونا وائرس کے خلاف جنگ معاشی محاذ پر بھی مساوی طاقت کے ساتھ لڑنا ہوگی۔ اس لیے مالی مداخلت کا پہلا اقدام آمدنی میں سرکاری امداد کی شکل میں ہونا چاہیے اور یہ اقدام ضروری ہے لہٰذا فوری طور کیا جانا چاہیے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ بعض ریاستوں نے آمدنی کے خسارے سے نمٹنے کے لیے فوری ردِ عمل دکھایا ہے۔

کیرالہ نے 200 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے، اترپردیش نے 35 لاکھ یومیہ مزدوروں کو ماہانہ ایک ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے اور دہلی سرکار نے ساڑھے آٹھ لاکھ لوگوں کو ماہانہ 5000 روپے کا وظیفہ دینے کی بات کی ہے۔ مرکزی سرکار کو بھی وقت ضائع کیے بغیر اپنی طرف سے ایسا ہی ردِ عمل دکھانا چاہیے۔

رینو کوہلی نئی دلی میں مقیم ایک مائیکرو اکونومسٹ ہیں۔

کورونا وائرس کا دھچکہ عالمی معیشت پر ایک شدید چوٹ ہے بلکہ اسے کساد بازاری کی جانب ڈھکیل رہی ہے۔ یہ ایک ایسا دھچکہ ہے کہ جس کا علاج بھی معیشت کا قاتل ہے کیونکہ دنیا کو گھیر چکی وبا کو قابو کرنے کے لیے سب کچھ بند کرنا (لاک ڈاون) ایک مجبوری ہے۔ بھارت بھی اس مرحلے پر پہنچا ہے کہ جہاں اس نے اپنے ایک ارب 30 کروڑ لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کے لیے کہا ہے تاکہ وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے اور ان شہریوں کی حفاظت ممکن ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہوائی اور زمینی سفر، تفریح و دیگر کئی سرگرمیوں اور خدمات پر پہلے ہی پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔

کورونا وائرس کا دھچکہ بُرا تو ہے ہی لیکن یہ خصوصی طور پر ایک بُرے وقت میں لگا ہے کیونکہ معیشت پہلے ہی لگاتار تین برس سے سُست روی کا شکار تھی۔ ملک کا مالی نظام کمزور اور خطرے سے دوچار تھا۔ سبھی شعبے بشمول سرکاری، نجی، غیر مالی اور گھریلو، قرضے کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر کاروبار کے بند رہنے کے معاشی اخراجات بہت بھاری اور نا قابلِ تصور ہیں۔ یہ اندازہ لگانا معقول ہے کہ موجودہ حالات،گہرے اثرات رکھنے کے باوجود، عارضی ہیں اور اگر یہ (حالات) فوری طور قابو ہوگئے تو ہماری اس کساد بازاری (ریسیشن) سے، جو ایک مہلک بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکار کی خود پیدا کردہ ہے۔ کامیاب ابھرنے کے بڑے امکانات ہیں لیکن اگر وبا کی مدت لمبی ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ بیشتر سرگرمیاں اور خدمات بند رکھنا پڑیں تو اقتصادی نقصان نہ صرف بہت زیادہ ہوگا بلکہ کچھ نقصان وقتی ہونے کے بجائے دائمی ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ سب نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او)کی ان رپورٹز کے علاوہ ہے کہ جن کے مطابق بھارت میں دو برس قبل بے روزگاری 45 برس میں سب سے زیادہ تھی حالانکہ سرکاری طور ان رپورٹز کو قبول نہیں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ پریشانیوں کی وجہ سے بے روزگاری کی یہ صورتحال اور زیادہ بدتر ہو جائے گی۔

مختلف صنعتوں، کاروبار اور متعدد خدمات کی بندش اور اس کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کی مانگ میں گراوٹ روزگار کے لیے دہری پریشانی ہے۔ بدقسمتی سے بھارت اس حوالے سے خطرات سے دوچار ہے۔ ملک کے روزگار کا دو پانچواں حصہ غیر رسمی یا بے ضابطہ ہے جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد (مثلاً گھریلو نوکری، یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے وغیرہ) تحریری معاہدوں کے بغیر کام پر ہے۔ خود روزگار کمانے والوں میں کم آمدنی کا کام کرنے والوں (جیسے پھیری والے، پرچون فروش،مرمت کا کام کرنے والے اور دیگر چھوٹی خدمات فراہم کرنے والے)کی خاصی تعداد شامل ہے جبکہ خدمات (سروسز) ملک کی مجموعی پیداوار کا 54 فیصد ہیں۔ اس طرح کے کام پر تالہ بندی کا بھاری اثر ہوتا ہے۔ بالخصوص یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کا انحصار ہی یومیہ اُجرت اور نقدی کے بہاؤ پر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جہاں یہ معاملہ ان لوگوں کے ساتھ بھی ہے کہ جو معاہدے کی بنیاد پر ملازمت کرتے ہیں۔ چناچہ ملک میں بے شمار لوگوں کی ملازمت ایسے کاروباروں کے ساتھ جڑی ہے کہ جو خود بھی فطری طور بڑے کمزور ہیں۔

ان وجوہات کے لیے کووِڈ 19 یا کورونا وائرس سے لڑائی روزگار پر منفی اور شدید اثرات مرتب کرتی ہے اور اس صورتحال سے فوری طور یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں اور کم آمدنی والے شعبے متاثر ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کمپنی ان حالات میں معمول کی سرگرمیوں کی جلد بحالی کی امید سے ابھی ملازمین کی چھٹی نہ کریں لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ تنخواہوں میں کٹوتی بھی نہیں ہوگی۔ اگر فروختگی،محصولات اور نقدی کے بہاؤ کا کوئی بحران آیا تو اس کا راست اثر اُجرتوں اور تنخواہوں پر پڑے گا اور اگر رکاوٹیں طویل ہوگئیں تو نوکریوں کا منظر بڑا سنگین ہو جائے گا۔ فی الوقت جو عارضی طور نوکریاں چلی جائیں گی اور مشاہروں،تنخواہوں اور کمائی میں کٹوتی ہوگی، وہ آگے چل کر روزگار میں دائمی گراوٹ کی شکل میں بدل سکتی ہے۔ وہ اس لیے کیونکہ کمزور یا زیادہ خطرے سے دوچار فرمز اور کاروباری اداروں میں نقدی کے بہاؤ کے کافی دیر تک رہنے والے بحران کو برداشت کرنے کی کم سکت ہوتی ہے جو انہیں دیوالیہ پن،کاروبار بند کرنے، (واجب االادا کی) نا دہندگی اور کام میں کمی کی جانب لیتا ہے جو بھی مختلف فرمز کے انفرادی مسائل ہوں۔ اس سلسلے میں ابتدائی حالات بڑے اہم ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے اگر تالہ بندی نے طول پکڑا تو مودہ سُست روی مستقبل میں نوکریوں کے حوالے سے مایوسی کی پیش گوئی کرتی ہے۔

لہذا اگر اس بہترین منظر کا تصور کریں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جاری تالہ بندی مختصر ترین ہوگی تو بھی، نوکریوں کے حوالے سے حالات سنگین ہیں اور پھر اس سے بازار میں طلب پر منفی دباؤ پڑتا ہے حالانکہ صارفین کی طرف سے مصنوعات کی مانگ، دونوں شہری اور دیہی علاقوں میں پہلے ہی سُست روی کا شکار تھی۔ صورتحال بہت تیزی سے بدل رہی ہے جو معیشتی ماحول پر غیر یقینیت کے سائے ڈالتی ہے۔ لیکن روزگار، تنخواہوں اور کمائی میں عارضی گراوٹ کے اشارے واضح ہو چکے ہیں۔ اس سب سے مالیاتی ردِ عمل کی فوری ضرورت اجاگر ہوتی ہے کیونکہ مالیاتی اثرات ان چیزوں پر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں کہ جو شرحِ سود یا کریڈت چینلز کے ساتھ جُڑی ہوئی نہ ہوں۔

کورونا وائرس کے خلاف جنگ معاشی محاذ پر بھی مساوی طاقت کے ساتھ لڑنا ہوگی۔ اس لیے مالی مداخلت کا پہلا اقدام آمدنی میں سرکاری امداد کی شکل میں ہونا چاہیے اور یہ اقدام ضروری ہے لہٰذا فوری طور کیا جانا چاہیے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ بعض ریاستوں نے آمدنی کے خسارے سے نمٹنے کے لیے فوری ردِ عمل دکھایا ہے۔

کیرالہ نے 200 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے، اترپردیش نے 35 لاکھ یومیہ مزدوروں کو ماہانہ ایک ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے اور دہلی سرکار نے ساڑھے آٹھ لاکھ لوگوں کو ماہانہ 5000 روپے کا وظیفہ دینے کی بات کی ہے۔ مرکزی سرکار کو بھی وقت ضائع کیے بغیر اپنی طرف سے ایسا ہی ردِ عمل دکھانا چاہیے۔

رینو کوہلی نئی دلی میں مقیم ایک مائیکرو اکونومسٹ ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.