ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں بھوپال کی آئی پی ایس اسکول میں رکن اسمبلی عارف مسعود کی قیادت میں سرسید احمد خان کے یوم پیدائش اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے 100 برس مکمل ہونے پر جشن سرسید منایا گیا-
اس موقع پر مقررین نے 'تعلیم سے ترقی کے سو قدم' کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے سر سید احمد خان کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ مقررین نے کہا کہ سنہ 1857 کی جنگ میں سر سید احمد خاں نے انگریزوں کے ظلم اور بھارتیوں کی تباہی کو بہت قریب سے دیکھا تھا- حالات کا اندازہ لگانے کے بعد انہوں نے طے کیا جب تک بھارت کے لوگ جدید تعلیم سے خود کو آراستہ نہیں کریں گےتب تک ان کی ترقی کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔
بھارت میں سائنسی مزاج پیدا کرنے اور سائنٹیفک ٹیمپرامینٹ پیدا کرنے کے لیے انہوں نے نے سائنٹیفک سوسائٹی کو بنایا، جس کا مقصد یورپ کے سائنٹیفک علوم کو بھارتی زبان میں پہنچانا تھا، تاکہ بھارت کے لوگ بھی یورپ میں ہونے والے سائنسی تجربات سے روبرو ہو سکے۔
مقررین نے بتایا کہ 'سنہ 2020 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کا صد سال ہے- اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بھی 100 برس مکمل ہوئے ہیں آج کا دن ہمارے لیے اس لیے بھی خاص ہے کہ ہم نے سرسید کی تعلیمی مشن کی روشنی میں تعلیم سے ترقی کے 100 قدم کو مکمل کیا ہے- آج سرسید کی یوم پیدائش بھی ہے ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بننے میں بھوپال کے نوابوں نے اپنا بھرپور تعاون دیا ہے'۔
مقررین کا کہنا ہے کہ 'سنہ 1920 میں جب علی گڑھ یونیورسٹی بنی تو نواب سلطان جہاں بیگم کو اس کا پہلا چانسلر بنایا گیا' وہ تاحیات چانسلر تھیں۔ اس کے بعد ان کے بیٹے نواب حمید اللہ خان علی گڑھ یونیورسٹی کے چانسلر رہے آج ہم لوگ علی گڑھ یونیورسٹی کے 100 سال کا سفر اور سرسید کے تعلیمی مشن اور ان کی تحریر کو یاد کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں- آج کے سیمینار میں یہاں موجود دانشور سرسید کی فکر ان کے نظریات اور ان کے مشن پر جو کچھ سامنے لائیں گے وہ ہماری نئی نسل کو فائدہ پہنچائیں گی'۔
سرسید کا بھوپال سے خاص رشتہ رہا ہے- سر سید خود بھوپال آئے تھے- اور انہوں نے اپنے تعلیمی مشن کو لے کر نواب شاہجہاں بیگم سے ملاقات کی تھی- نواب شاہ جہاں بیگم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے مدد کی تھی- اسی طرح ان کی بیٹی نواب سلطان جہاں نے بھی ہر قدم پر علی گڑھ یونیورسٹی کیلئے اپنے خزانے کا منہ کھول رکھا تھا۔
دراصل نواب سلطان جہاں بیگم کو لوگ صرف ایک نواب کی حیثیت سے ہی جانتے ہیں، لیکن ان کا علی گڑھ یونیورسٹی سے محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک بڑی ادیب تھیں اور انہوں نے اپنی زندگی میں مختلف موضوعات پر 42 کتابیں بھی تحریر کی تھیں۔ پڑھنے اور لکھنے کے شوق نے ہی بھوپال کے نوابین کو علی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ کر رکھا تھا۔