یہ ایسا قانون ہے جو بغیر کسی اختلاف کے لوگوں کو مساوات اور انصاف کا حق دیتا ہے۔'یہ قانون سے زیادہ عزم کی اہمیت کا حامل ہے۔یہ عزم، وعدہ اور سلامتی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ہمیں خود کو ایک بڑے مقصد کے لیے وقف کردینا چاہیے'۔یہ بات پنڈت جواہر لعل نہرو نے دسمبر 1946 میں آئین کی منظوری کے دوران منعقد کی گئی میٹنگ کے دوران کہی تھی۔
جب لوگوں کو تارکین وطن حکمرانوں کی غلامی کے زنجیروں سے آزادی ملی تب متعدد باشعور افراد اور دانشوروں نے آئین کی تشکیل کے دوران آزادی، برابری اور بھائی چارے کو بنیادی حقوق کی حیثیت دلانے اور یقینی بنانے کے لیے اپنے قابلیت اور تدبر کا مظاہرہ کیا۔
عظیم شخصیات نے 70 برس تک منانے والے آئین کی تشکیل کی۔
فرانسیسی آئین سے ہم نے مساوات، آزادی اور بھائی چارہ، سوویت یونین سے پانچ سالہ انتخابی منصوبہ بندی، آئیرلینڈ سے ریاستی پالیسی کے اصول اور جاپان سے آئین پر کام کرنے کے طریقہ کار کو آئین ہند میں شامل کیا گیا۔
مودی حکومت نے سنہ 2015 میں 26 نومبر کو امیبیڈکر کے 125 ویں سالگرہ منانے کے طور پر فیصلہ کیا تھا۔مرکز نے ملک کے تمام اسکولوں میں پورے سال پروگرام منعقد کرانے کی ہدایت دی تاکہ آئین کے 70 برس پورے ہونے کے موقع پر اس کی عظمت کا اعلان کیا جاسکے۔
آئین کا گولڈن جوبلی منانے کا موقع ایک طرف ہے، لیکن ملک کے دسویں یوم صدر نارائن نے کہا تھا کہ یا تو آئین کی وجہ سے ہماری ناکامیاں ہوئیں ہیں یا ہم اس کی ناکامی کے سبب بننے ہیں۔
ملک کے ہر شہری سے لےکر حکمرانوں کو اپنے متعدد مسائل کے حل کی فراہمی کے لیے آئینی اقدار کی پاسداری کرنی ہوگی۔
صدر سرو پلی رادھاکرشن نے یوم جمہوریہ کے خطاب کے دوران ہماری رہنمائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مناسب اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے صرف بیانات دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔
آئین میں100 سے زائد ترمیم کے باوجود ہم 70 برسوں سے غربت ، بھوک اور خراب صحت سے نمٹنے کے پہلے دن کے ہدف کو بھی حاصل نہیں کرپائے ہیں۔اس کے علاوہ انسانی ترقی کے انڈیکس کے مطابق بھارت کو پوری دنیا میں 130 واں مقام حاصل ہے۔اس کا حل تلاش کرنا ہمارا فوری مقصد ہونا چاہیے۔دراصل، سیاسی بدعنوانی ہر قسم کی بدعنوانی کا باعث ہے جو گاؤں اور کسی بھی جگہ کی جڑوں تک بدعنوانی پھیلانے کا کام کرتی ہے۔
وزیراعظم اندرا گاندھی کی سربراہی کے دوران بیوروکریسی نے قانون ساز، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے فرائض کی ادائیگی کے بجائے آئین کی قدر کو کمزور کردیا۔
مہاتماگاندھی نے کہا ہے صرف ہدف ہی نہیں وقت کی ضرورت کے حصول سے ہی بہتر راستے تلاش کیے جاسکتے ہیں اور پھر ان اہداف کو آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
کئی دہائیوں سے بدعنوانی میں ملوث خود غرض رہنماؤں کی بیوقوفی نے ملک میں کالا دھن رکھنے والوں کے ظلم کو سرکاری مہر لگا کر ملک کے اخلاقی جھنڈا کو اٹھایا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں ہرگزرتے دن کے ساتھ معاشی بحران میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے جو غربت سے زیادہ چیلنجنگ ہے۔
نومبر 1949 کو آئین کے اختتامی اجلاس کے دوران امبیڈیکر نے 25 نکات پر مبنی تببیہہ دی تھی جسے آج اضافی سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔
سول نافرمانی اور ستیہ گرہ سے لاپرواہی کے تناظر میں امبیڈیکر نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاست میں اندھی پیروی اور عقیدتمندی آمریت کا باعث بنتی ہے۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اگر طویل عرصے تک مساوات سے انکار کیا جاتا رہا تو سیاسی جمہوریت خطرے میں ہوگی۔حکومت اور عوام کو آئینی اقدار کی سختی سے پاسداری کرنی ہوگی۔حکمرانوں کو اس بات کو دھیان میں رکھنا ہوگا کہ غربت سے زیادہ بڑی توہین نہیں ہو سکتی کیونکہ ملک کی حقیقی ترقی تب ہی ممکن ہے جب اس ترقی کے عمل میں غریب شامل ہوتے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے 'وی دی پیپل آف انڈیا' جس کا مطلب ہے عوام ہی آئین کے سچے بادشاہ ہیں۔
بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کے لیے مؤثر طریقہ کار اپنانا، عزم کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا اور شہری حقوق کے تحفظ کے ذریعہ ہی آئینی روح کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔