انسان کا شاید سب سے بڑا تخلیقی کارنامہ زبان ہے، ہم دراصل زبان کے ذریعے اپنی ہستی کا اور اس رشتے کا اقرار کرتے ہیں جو انسان نے کائنات اور دوسرے انسانوں سے قائم کر رکھے ہیں۔ انسان کی ترقی کا راز بھی بہت کچھ زبان میں پوشیدہ ہے کیونکہ علم کی قوت کا سہارا زبان ہی ہے۔
اردو ہندی زبان کی طرح ہندوستانی زبان کی ایک قسم ہے۔ یہ شوراسنی زبان (یہ زبان وسطی ہند آریائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، ان میں پنجابی زبان بھی شامل ہے) کی ذیلی قسم اپ بھرنش سے قرون وسطٰی (چھٹی سے تیرہویں صدی) کے درمیان وجود میں آئی۔
اردو زبان کو انیسویں صدی کی ابتدا تک ہندی، ہندوی، دہلوی، ریختہ، ہندوستانی، دکنی اور گجراتی غرض مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی لشکر، سپاہی، کیمپ، خیمہ وغیرہ کے ہیں۔ عہدِ مغلیہ میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں صدی کا زمانہ اردو زبان کی تشکیل کا دور ہے۔ اس دور میں بقول مولوی عبدالحق اردو کٹھالی میں پڑی گل رہی تھی ہنوز سونا نہیں بنی تھی۔
اس دور میں امراء اور عمائدینِ سلطنت نے اردو کو منہ نہیں لگایا۔ ممکن ہے کہ یہ لوگ گھروں میں یہی زبان بولتے ہوں مگر ان کی تحریر اور تصنیف کی زبان مدت تک فارسی ہی رہی۔
یہی زمانہ تصوف اور بھکتی کے عروج کا بھی ہے۔ اسی دور کی اردو کی خصوصیات میں ہندی الفاظ کی بہتات تھی، عربی اور فارسی کے الفاظ خال خال پائے جاتے تھے۔ فارسی اور عربی کی مذہبی اور صوفیانہ اصطلاحیں استعمال کی جاتی تھیں مگر شعراء ہندی اور سنسکرت کے ٹھیٹ الفاظ اور عارفانہ اصطلاحیں بھی بڑی بےتکلفی سے لکھ جاتے تھے۔ شاعرانہ بحریں اور اصنافِ سخن سب ہندی کے تھے۔
مزید پڑھیں:'پاکستان زندہ باد' کہنے والی لڑکی کی ضمانت رد
اسی دور کی ایک غزل بھی امیر خسرو کے نام سے مشہور ہے جس کا پہلا مصرع فارسی میں ہے اور دوسرا اردو میں۔
زحالِ مسکین مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو گاہے لگاہے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز از زلف و روزِ وصلش چوعمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں