جس میں شرکاء نے اردو کے چاہنے والوں کو اس زبان کے فروغ اور ترویج و اشاعت کے لئے زبانی جمع خرچ کے بجائے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر عمل اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
ماہر اقبالیات پروفیسر عبدالحق نے اس موقع پر صدارتی تقریر میں کہا کہ یہ ماتم اور نوحہ گری کا وقت نہیں ہے۔احساس کمتری کو دلوں سے نکال دیجئے۔ یہ صارفیت کا دور ہے اور اس دور میں کوئی بھی کاروباری اردو بولنے اور پڑھنے والی کروڑوں آبادی کو نظر اندازنہیں کرسکتا ہے۔اسی طرح کوئی بھی حکومت اور سیاسی جماعت اتنی بڑی آبادی سے غافل نہیں رہ سکتی۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی بات کو پرزور او ر اثر انداز میں پیش کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ ،'یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جو بچے اردو پڑھتے ہیں ان کے اندر اچھی اخلاقی خوبیاں بھی پروان چڑھتی ہیں اس لئے اگر آپ اپنے گھر وں کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں تو ان کا شین کاف درست ہونا چاہئے۔'
انہوں نے مشورہ دیا کہ اردو کو اپنی ضرورت سمجھ کر، اپنے اولاد کی ضرورت سمجھ کراور ایک نسخۂ کیمیا سمجھ کر اپنائیں۔
اردو کو اس کا قانونی اور آئینی حق دلانے کے لئے برسوں سے سرگرم الہ آباد کے لال بہادر گوڑ نے شکوہ کیا کہ آج اردو والے خود ہی اردو سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ وہ اپنے آئینی حق لینے کے لئے محنت کرنے کے بجائے سہل پسندی اور احساس کمتری سے دوچار ہیں۔انہوں نے کہا کہ تمام والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ 80فیصد سے زیادہ والدین اپنے بچوں کو اردو پڑھانا پسند نہیں کرتے دوسری طرف حکومت کی عدم توجہی کا شکوہ کرتے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ جب آپ کو خط پر پتہ لکھنے دفتروں میں درخواست دینے اور بینکوں میں چیک وغیرہ اردو میں دینے کی آئینی طور پر اجازت ہے تو ایسا کرنے سے گھبراتے کیوں ہیں؟گوڑ کا کہنا تھا کہ اردو میں لکھے گئے چیک وغیرہ قبول کرنا بینکوں کی قانونی ذمہ داری ہے اور ایسا نہیں کرنے کی صورت میں انہیں جواب دینا پڑسکتا ہے۔