پولیس نے ان طلبا کو اس وقت حراست میں لیا جب یونیورسٹی کے وائس چانسلر یوم جمہوریہ کی تقریب سے خطاب کررہے تھے اسی دوران کچھ طلبا نے وائس چانسلر گو بیک گو بیک کے نعرے لگانے لگے۔
جس کے بعد یونیورسٹی کی پراکٹوریل ٹیم نے احمد مجتبی سمیت تین طلبا کو حراست میں لے لیا اس کے بعد ان سبھی کو علی گڑھ پولیس کے حوالے کر دیا۔
بتایا جارہا ہے کہ دفعہ 151 کے تحت چاروں کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد یونیورسٹی کے طلباء وطالبات نے پراکٹر دفتر کو گھیر کر چاروں طلباء کی رہائی کا مطالبہ کرنے لگے۔
طلبہ کے احتجاج اور مطالبہ کے مطابق فزشتہ روز تین طلبا کو علی گڑھ پولیس نے رہا کر دیا تھا لیکن احمد مجتبیٰ کو جیل بھیج دیا تھا جس کے لیے یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے پرانی چونگی گیٹ کے پاس انوپشہر روڈ کو جام کرکے احمد مجتبی فراز کی رہائی کا مطالبہ کرنے لگے، اور رات کے بارہ بجے تک احتجاج کیا۔
گزشتہ روز علی گڑھ انتظامیہ نے یونیورسٹی کے طلباء و طالبات سے خصوصی بات چیت کرکے یہ طے پایا کہ پیر کی صبح 11 بجے تک احمد مجتبیٰ فراز کو رہا کر دیا جائے گا جس کے بعد طلباء نے احتجاج ختم کر دیا۔ اور احمد مجتبیٰ فراز کو آج دو پروفیسر کی ضمانت کے بعد رہا کردیا گیا۔
ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ رنجیت سنگھ نے بتایا 'کل یوم جمہوریہ تقریب کے وقت یونیورسٹی پراکٹوریل ٹیم نے چار طلبہ کو حراست میں لیا تھا جن پر ماحول خراب کرنے کا الزام تھا، جس میں سے تین طلبا کو کل ہی رہا کر دیا گیا تھا اور چوتھے احمد مجتبی فراز کو آج دو پروفیسروں کی ضمانت کے بعد رہا کردیا گیا، دفعہ 151 کے تحت گزشتہ روز انہیں حراست میں لیا گیا تھا اور ضمانت نہ آنے کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ آج احمد مجتبی فراز کی ضمانت آگئی جس کی وجہ سے ان کو رہا کردیا گیا۔
رنجیت سنگھ نے بتایا 'آج یونیورسٹی اور علی گڑھ کے حالات نارمل ہیں گزشتہ روز کچھ طلباء نے جنگی گیٹ پر روڈ جام کر دیا تھا اور تقریبا چھ بجے سے رات کے بارہ بجے سڑک جام رکھا۔