محترمہ اہوجا نے رائٹ ٹو ایجوکیشن فورم کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران 'چھ برس سے کم عمر کے بچوں کے حقوق اور چیلنج' عنوان سے منعقد ویبینار میں یہ اظہارِ خیال کیا۔ اس میں امیبیڈکر یونیورسٹی، دہلی کے پروفیسر (ایمیرٹس) ونیتا کول اور اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کی پروفیسر ریکھا شرما سین نے بھی اپنی باتیں رکھیں۔ الائنس فار رائٹ ٹو ای سی ڈی کی کوآرڈینیٹر اور چھ سال سے کم عمر بچوں کی تعلیم-صحت-غذا پر لمبے عرصے کام کرنے والی سمترا مشرا نے اس ویبینار کی نظامت کی۔
محترمہ اہوجا نے حالیہ منظرنامے اور خاص کر کووِڈ-19 سے پیدا شدہ عالمی بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کی مشکل گھڑی میں ہم چھ برس سے کم عمر کے ان نو نہالوں کے حقوق پر بات کر رہے ہیں جو ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحت کی پہنچ کے نظریے سے ہمارے گاؤں کی موجودہ صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے اور عوامی صحت خدمات کا ڈھانچہ بھی ناگفتہ بہ ہے۔
یونیسف کی جانب سے مختلف ریاستوں میں کیے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کے بارے میں معلومات اور احتیاط کے لیے حکومت سے بات چیت کے بعد ایک ایکشن پلان تشکیل دیا گیا ہے جس میں آنگن واڑی اور آشا کارکن اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس مقصد سے انہیں کورونا کی شناخت اور حفاظت سے متعلق آن لائن تربیت دی گئی تھی لیکن ابتدا میں ان کارکنوں کو اپنے دفاع کے لیے کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی تھی لیکن بعد میں آہستہ آہستہ کچھ انتظامات کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ تمام آنگن واڑی خدمات تقریباً مکمل بند ہیں۔ کچھ ریاستوں میں ویکسین (ٹیکہ کاری) شروع کی گئی ہے۔ بچوں کی جسمانی نشوونما کی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے نقص تغذیہ کی کمی اور غذائیت کا شکار بچے متاثر ہورہے ہیں۔ ہر روز 1000-1500 بچے مر رہے ہیں جو باعث تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ آنگن واڑی مراکز کا آپریشن کب سے ہوگا کہا نہیں جا سکتا۔ اس کے بعد سیکھنے سکھانے کا عمل شروع ہوگا۔
پروفیسر ونیتا کول نے کہا کہ 'آتم نربھر' ہونے کے لیے بچوں کی ہمہ جہت ترقی ضروری ہے۔
پروفیسر ریکھا شرما سین نے کہا کہ آن لائن تعلیم اور فاصلاتی تعلیم کے مابین فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
رائٹ ٹو ایجوکیشن فورم کے قومی کنوینر امبریش رائے نے ویبنار میں شریک لوگوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج چھ برس سے کم عمر کے بچوں کی ذہنی نشونما 75 فیصد ہو جاتی ہے۔
اس ویبینار میں ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے رائٹ ٹو ایجوکیشن فورم کے علاقئی نمائندے، ماہرین تعلیم، اساتذہ اور تقریباً 400 افراد شریک ہوئے۔