اس سے پہلے گذشتہ رات برطانیہ کے پارلیمنٹ میں جانسن کی بریگزٹ پالیسی (برطانیہ کے یوروپی یونین سے باہر ہونے کے عمل) کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب حکمران کنزرویٹو پارٹی کے باغی ارکان پارلیمان نے اپوزیشن کے ارکان پارلیمان کے ساتھ مل کر حکومت کو پارلیمنٹ میں شکست دے دی۔
اس سال جولائی میں وزیر اعظم کے عہدہ سنبھالنے کے بعد جانسن کا پارلیمنٹ میں یہ پہلا امتحان تھا، لیکن بریگزٹ کے معاملہ پر ایک قرار داد پر ووٹنگ ہوئی جس میں صرف 301 ارکان پارلیمان نے ان کی حمایت کی جبکہ 328 ارکان پارلیمان نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔
برطانیہ کے وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے مطابق اب ملک میں اس سیاسی مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے انتخابات ہی واحد متبادل ہے۔
برطانیہ کے قانون کے مطابق اگر جانسن جلد انتخابات کرانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے ہوگی۔
قابل غور ہے کہ جانسن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ کسی بھی صورت میں 31 اکتوبر تک برطانیہ بغیر کسی معاہدہ کے یوروپی یونین سے الگ ہو جائے گا۔
بریگزٹ کے لیے پہلے سے طے اس میعاد میں تبدیلی کے لیے باغی اور اپوزیشن کے ارکان پارلیمان کو ایک قرارداد پیش کرکے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اسے منظور کروا کرقانون بنا سکتے ہیں۔