ریولیوشنری سوشلسٹ پارٹی کے این کے پریم چندرن نے لوک سبھا میں مسلم خاتون(میرج رائٹس پروٹیکشن)بل 2019 کو رد کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس بل کے ذریعےسے ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ اس بل کے ذریعے اس کاارادہ سیاسی فائدہ اٹھانا اور سماج کے ایک فرقے کے لوگوں کو ہدف بناکر کام کرناہے۔
پارلیمنٹ میں حیدرآباد کے رکن پارلیمان اور اے آئی ایم آئی ایم کے چیف اسد الدین اویسی نے اس بل کی زوردار مخالفت کی اور سرکار پر جم کر نشانہ سادھا۔ اسی دوران اویسی نے کہا کہ اسلام میں شادی ایک کنٹریکٹ کی طرح ہے، اسے آپ جنموں کا ساتھ مت بنائیے۔
انہوں نے کہا کہ میں تیسری بار اس بل کے خلاف کھڑا ہوا ہوں اور جب تک زندگی رہے گی تب تک اس بل کا مخالفت کرتا رہوں گا، اویسی نے کہا کہ تین طلاق کو اس سرکار نے جرائم میں ڈال دیا، ایسے میں خاتون کا پرورش کون کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اگر خواتین کی اتنی ہی فکر ہے تو اسے دیگر مذاہب کی خواتین کے مفاد کے لیے بھی اسی طرح کا قدم اٹھانا چاہیے لیکن وہ ایسا کرنے کے بجائے دوہرا رویہ اختیار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں گھریلو تشدد کے لیے قانون ہے اور اس کے ذریعے بھی خواتین کو تحفظ فراہم دیاجا سکتا ہے لیکن اس کے استعمال سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا اس لیے یہ بل لایا گیا ہے۔
وہیں اقلیتی معاملوں کے وزیر وزیرمختار عباس نقوی نے جمعرات کو کہا ہے کہ سال 1986 میں کانگریس کی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس وقت کے فیصلے کو بدل کر جو غلطی کی تھی اس کی سزا مسلم خواتین آج تک بھگت رہی ہیں۔
نقوی نے تین طلاق کو غیر قانونی بنانے سے متعلق مسلم خواتین (تحفظ شادی حقوق) بل2019 پر لوک سبھامیں جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ (شاہ بانو معاملے) میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر فعال کرنے کے لیے ایک قانون لایا گیا تھا۔ آج کی حکومت اسی فیصلے کے نفاذ کے لئے قانون لائی ہے۔ اس وقت کی کانگریس حکومت نے کچھ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے لمحوں کی خطا کی تھی جو صدیوں کی سزا بن گئی ہے۔