جامعہ عثمانیہ کا قیام ایک صدی قبل 1918 میں عمل میں آیا تھا۔ جس کے بعد سے اب تک عثمانیہ یونیورسٹی مختلف عوامی تحریکات کا مرکز رہا ہے۔ بھارت میں جاری شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف عثمانیہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں بھی ملک کی مختلف ریاستوں کے طلبا و طالبات نے شرکت کی۔
عثمانیہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹز طلبا یونین اور مختلف طلبا تنظیموں کے زیر اہتمام اس احتجاجی جلسے میں ملک کی متعدد یونیورسٹییز جیسےجامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو، ایچ سی یو، مانو، جے این ٹی یو اور ایفلو ٔ کے طلبا و طالبات نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔
مظاہرے میں شامل عوام نے سی اے اے کے نفاذ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا۔
طلبا تنظیموں کے ذمہ داران نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے تحریک کو مزید پروان چڑھانے کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ 'اس قانون کو منسوخ کرنے تک احتجاج کی شدت میں کمی نہیں آئے گی'۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بہادر طالبات لدیدہ فرزانہ و عائشہ رعنا نے بھی اس احتجاجی جلسے میں شرکت کی اور پرجوش خطاب کیا۔
لدیدہ فرزانہ نے پولیس کی جانب سے تعلیمی اداروں میں بربریت کی سخت مذمت کی۔
ان طالبات نے مرکزی حکومت اور یو پی حکومت سے سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی رہائی اور مقدمات سے دستبرداری اختیار کرنے کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھیں : ہم نے جناح کے پیغام کو ٹھکرایا ہے: اسد الدین اویسی
جامعہ ملیہ کی طالبات نے جلسے میں موجود ہر فرد کو اس قانون کے خلاف حرکیاتی کردار ادا کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ 'طلبا ہی وہ طاقت ہے جو حکومت کو من مانی کرنے سے روک سکتی ہے'۔