ETV Bharat / bharat

کووِڈ19 کی وبا ختم ہوجانے کے بعد دُنیا کیسی ہوگی؟ - کورونا وائرس

کورونا وائرس کی وجہ سے اب سڑکوں پر پہلے کی طرح احتجاج اور جلسے جلوس دیکھنے کو نہیں مل رہے ہیں۔ بلکہ اب لوگ اس ضمن میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ مصر جیسے ممالک میں شہری انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے مسائل کا اظہار کررہے ہیں۔ اس وقت اشیا کی قیمتوں میں اضافے، ایمرجنسی سپلائز کی سمگلنگ اور طبی آلات کی قلت جیسے مسائل پیدا ہوجانے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔وہیں وائرس کی وجہ سے مختلف کلچرل تقریبات چھوٹے پیمانے پر اور کم لوگوں کی شرکت کے ساتھ منعقد کرنے کا رواج چل پڑا ہے۔ شراب نوشی اور سگریٹ نوشی میں کمی آسکتی ہے۔ لوگ اب بھیڑ بھاڑ والے شاپنگ مالز میں جانے کے بجائے آن لائن شاپنگ کرنے کو ترجیح دیں گے۔ گھروں میں زیادہ تر وقت اپنے افراد خانہ کے ہمراہ گزارنے کا رواج شروع ہوگیا ہے۔ کووِڈ19 کی وجہ سے دنیا میں سیکھنے کی طلب بڑھ رہی ہے

کووِڈ19 کی وبا ختم ہوجانے کے بعد دُنیا کیسی ہوگی؟
کووِڈ19 کی وبا ختم ہوجانے کے بعد دُنیا کیسی ہوگی؟
author img

By

Published : Apr 18, 2020, 5:20 PM IST

ہر بحران کے دونوں یعنی مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ جب بھی کبھی کسی طرح کا عالمی بحران پیدا ہوجاتا ہے، دُنیا میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کووِڈ۱۹ کے خلاف اس وقت جاری لڑائی کسی عالمگیر جنگ سے کم نہیں ہے۔ فی الوقت دو سو ممالک اس وبا کو شکست دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں اس وائرس سے مقابلہ کرتے ہوئے نئے اور سخت پالیسیاں اختیار کررہی ہیں۔ اسرائیلی تاریخ داں اور پروفیسر یووال ہراری نے پیش گوئی کی ہے کہ کووِڈ19کی وبا ختم ہوجانے کے بعد دُنیا ایسی نہیں ہوگی، جیسی اس سے پہلے تھی۔ انہوں نے اس ضمن میں وضاحت دی ہے کہ کس طرح سے دنیا بھر میں نئی تبدیلیوں کے آثار ابھی سے ہی دکھائی دینے لگے ہیں۔

وبا کے بعد حکومتیں عوامی تحفظ کے اقدامات کےلئے قواعد و ضوابط مقرر کریں گی اور پھر ان قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں گے۔ یہاں تک کہ خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی کےلئے سرویلنس کیمروں کا بھی استعمال کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین، جنوبی کوریا اور اسرائیل جیسے ممالک نے اس ضمن میں ابھی سے ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ تائیوان میں غیر ملکیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کےلئے رسٹ بینڈز کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ان رسٹ بینڈز کے ساتھ الیکٹرانک لوکیشن ٹریکنگ کا نظام منسلک کیا گیا ہے۔

جن ممالک میں کمزور جمہوری نظام ہے، ان کے لیڈروں نے آمرانہ رویے اختیار کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر آربین نے ملک کے آئین میں مطلوبہ تبدیلی لانے کے لئے خود کو مکمل اختیار تفویض کئے ہیں۔ اسی طرح فلپائین کے صدر روڈریگو ڈیوٹرٹ نے بھی مکمل اختیارات حاصل کرلئے ہیں۔ کولمبیا میں ایمرجنسی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔ کئی ممالک میں سیول حکومتوں میں ملٹری کی مداخلت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پاکستان میں فوج نے پہلے ہی کئی صوبوں میں مقامی حکومتوں کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں فوجی اہلکار لاک ڈاون نافذ کرانے کا کام کررہے ہیں۔ یہاں حکام نے شہریوں کے احتجاج اور جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ کئی جگہوں پر کووِڈ19 کی وجہ سے مجوزہ انتخابات موخر ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے اس سال مجوزہ صدارتی انتخاب ملتوی کردیا ہے۔اٹلی، شمالی میسیڈونیا، سربیا، سپین، برطانیہ اور اتھیوپیا میں صوبائی اور عام انتخابات میں تاخیرہوگئی ہے۔ کئی ممالک کی حکومتوں نے آن لائن ووٹر رجسٹریشن اور گھر بیٹھے ووٹ ڈالنے کا نظام متعارف کرانا شروع کردیا ہے۔ امریکا کے ایوان میں دو ممبران کے کووِڈ19 سے متاثر ہوجانے کے بعد اب یہاں آمنے سامنے کی میٹنگوں کے بجائے ورچیول (انٹرنیٹ کے ذریعے) میٹنگوں کے انعقاد کا رواج عام ہورہا ہے۔ ان مشکل حالات میں عام لوگوں نے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا شروع کردیا ہے۔ چین کے طلبا نے ووہان شہر کے اسپتالوں کے لئے سوشل میڈیا مومنٹ شروع کردی ہے۔

فلپائین کی یونیورسٹیوں اور شہری اداروں نے لاک ڈاون سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے فنڈز جمع کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ بھارت میں بھی صنعتوں کے مالکان، ملازم انجمنوں اور غیر سرکاری رضاکار تنظیمیں ضرورتمندوں کی مدد کررہے ہیں۔ کئی تنظیمیں بھکاریوں، ڈیلی ویجروں اور آوارہ کتوں کو خوراک فراہم کررہی ہیں۔

اب دُنیا میں ڈاکٹروں کے لئے نیا نطام تشخیص قائم کرنے کے آئیڈیاز پر کام ہونے لگا ہے تاکہ بیماری کی تشخیص اس کی علامات نمودار ہوجانے سے پہلے ہی کرنا ممکن ہوپائے۔ بیشتر ممالک اب ٹیلی میڈیسین پر انحصار کررہے ہیں۔ اس کی بدولت طبی عملے پر دباو کم ہورہا ہے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی بچت بھی ہورہی ہے۔ لوگ ہیلتھ انشورنس پر زیادہ پیسہ خرچ کرنے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام ممالک اپنے ہیلتھ کئیر نظام کو بہتر بنانے میں لگ گئے ہیں۔ بھارت میں بھی وینٹی لیٹرز اور اہم ادویات کی قلت پائی جارہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے حکومت نے متعلقہ صنعتوں کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب سڑکوں پر پہلے کی طرح احتجاج اور جلسے جلوس دیکھنے کو نہیں مل رہے ہیں۔ بلکہ اب لوگ اس ضمن میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ مصر جیسے ممالک میں شہری انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے مسائل کا اظہار کررہے ہیں۔ اس وقت اشیا کی قیمتوں میں اضافے، ایمرجنسی سپلائز کی سمگلنگ اور طبی آلات کی قلت جیسے مسائل پیدا ہوجانے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اس طرح کی متوقع صورتحال کے پیش نظر نائیجریا میں لوگ حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ انسداد کرپشن کے نظام کو مزید موثر بنائے۔

تمام ممالک کو چاہیئے کہ وہ وبا کو قابو کرنے سے متعلق اپنی حکمت عملی کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں۔ مثال کے طور پر اٹلی کے تجربات سے مصر استفادہ حاصل کرے۔ لیکن اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے ٹرمپ نے جرمنی کے ویکسین کو صرف امریکی شہریوں کو فراہم کرانے کی کوشش کی۔ چین نے بھی کووِڈ19 کے حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس دوران بھارت سارک سے جڑے ممالک کو یک جٹ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ بھارت کی جانب سے ایک غیر معمولی اقدام ہے۔ اہم ادویات دوسرے ممالک کو سپلائی کرنے کی وجہ سے بھی دُنیا بھر میں بھارت کے رُتبے میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تائیوان، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک نے اس وبا کے دوران اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائی ہیں۔ اس وائرس کی وجہ سے وہ عناصر جو عمومی طور پر سماج دشمن ہیں، بھی مدد کے لئےسامنے آرہے ہیں۔ طالبان نے عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کو اپنا تعاون دینے کا اعلان کیا ہے۔ برازیل میں مافیا سے جڑے لوگ لاک ڈاون کو نافذ کرانے میں تعاون دے رہا ہے۔

وائرس کی وجہ سے مختلف کلچرل تقریبات چھوٹے پیمانے پر اور کم لوگوں کی شرکت کے ساتھ منعقد کرنے کا رواج چل پڑا ہے۔ شراب نوشی اور سگریٹ نوشی میں کمی آسکتی ہے۔ لوگ اب بھیڑ بھاڑ والے شاپنگ مالز میں جانے کے بجائے آن لائن شاپنگ کرنے کو ترجیح دیں گے۔ گھروں میں زیادہ تر وقت اپنے افراد خانہ کے ہمراہ گزارنے کا رواج شروع ہوگیا ہے۔ کووِڈ19 کی وجہ سے دنیا میں سیکھنے کی طلب بڑھ رہی ہے۔ تعلیمی ادارے آن لائن سیکھنے کے پلیٹ فارمز میں تبدیل ہورہے ہیں۔ حکومت بھی انتظام و انصرام چلانے کے حوالے سے آن لائن نظام کو اپنا رہی ہیں۔ ’بگ ڈاٹا‘ اور ’آرٹی فیشل انٹیلی جنس‘ جیسی ٹیکنالوجی کی حامل چیزیں حکومت کو لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ روبرٹس کا استعمال اور ٹیلی میڈیسین کا رواج شروع ہونے والا ہے۔

اب اس نازک دور میں بنی نوع انسان کو یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا اکیلے سفر کرنا چاہیے یا پھر پوری دُنیا کو یکجہتی کے ساتھ چلنا چاہیے۔ اگر ہم علاحدہ علاحدہ چلیں گے تو اس کے نتیجے میں بحران میں مزید شدت پیدا ہوگی۔ لیکن پوری دُنیا یکجہتی کا مظاہرہ کرے گی تو نہ صرف کورونا وائرس پر فتح پائی جاسکتی ہے، بلکہ مستقبل میں آنے والی وباؤں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔

اس وقت ہم دولت کی تقسیم میں غیر معمولی تفاوت دیکھ رہے ہیں۔ ایک فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت جمع ہے جتنی باقی 99فیصد لوگوں کے پاس کل ملا کر ہے۔ لیکن وبا کے بعد یہ شرح بھی تبدیل ہوجائے گی۔ وبا کے بعد اسی فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہوگی، جتنی باقی بیس فیصد کی مجموعی دولت ہوگی۔ یعنی کچھ حد تناسب پیدا ہوجانا شروع ہوگا۔ امریکی ماہر سماجیات اور ماہر سیاسیات تھیدا سکوپل کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس موجودہ معاشی استحکام قائم نہیں رہے گا۔ وہ کنبے جن کے واحد کفیل ہیں، بری طرح متاثر ہوجائیں گے۔ سپلائی اور تعمیرات کی انڈسٹری سے جڑے لوگ بھی متاثر ہوجائیں گے۔ یل یونیورسٹی کے پروفیسر آف ہسٹری پال فریڈمین کا کہنا ہے کہ اب آنے والے کئی سال تک لوگ گھر سے باہر کھانا چھوڑ دیں گے بلکہ اپنے گھروں میں ہی کھانے پکانے کو ترجیح دیں گے۔

ہر بحران کے دونوں یعنی مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ جب بھی کبھی کسی طرح کا عالمی بحران پیدا ہوجاتا ہے، دُنیا میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کووِڈ۱۹ کے خلاف اس وقت جاری لڑائی کسی عالمگیر جنگ سے کم نہیں ہے۔ فی الوقت دو سو ممالک اس وبا کو شکست دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں اس وائرس سے مقابلہ کرتے ہوئے نئے اور سخت پالیسیاں اختیار کررہی ہیں۔ اسرائیلی تاریخ داں اور پروفیسر یووال ہراری نے پیش گوئی کی ہے کہ کووِڈ19کی وبا ختم ہوجانے کے بعد دُنیا ایسی نہیں ہوگی، جیسی اس سے پہلے تھی۔ انہوں نے اس ضمن میں وضاحت دی ہے کہ کس طرح سے دنیا بھر میں نئی تبدیلیوں کے آثار ابھی سے ہی دکھائی دینے لگے ہیں۔

وبا کے بعد حکومتیں عوامی تحفظ کے اقدامات کےلئے قواعد و ضوابط مقرر کریں گی اور پھر ان قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں گے۔ یہاں تک کہ خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی کےلئے سرویلنس کیمروں کا بھی استعمال کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین، جنوبی کوریا اور اسرائیل جیسے ممالک نے اس ضمن میں ابھی سے ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ تائیوان میں غیر ملکیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کےلئے رسٹ بینڈز کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ان رسٹ بینڈز کے ساتھ الیکٹرانک لوکیشن ٹریکنگ کا نظام منسلک کیا گیا ہے۔

جن ممالک میں کمزور جمہوری نظام ہے، ان کے لیڈروں نے آمرانہ رویے اختیار کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر آربین نے ملک کے آئین میں مطلوبہ تبدیلی لانے کے لئے خود کو مکمل اختیار تفویض کئے ہیں۔ اسی طرح فلپائین کے صدر روڈریگو ڈیوٹرٹ نے بھی مکمل اختیارات حاصل کرلئے ہیں۔ کولمبیا میں ایمرجنسی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔ کئی ممالک میں سیول حکومتوں میں ملٹری کی مداخلت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پاکستان میں فوج نے پہلے ہی کئی صوبوں میں مقامی حکومتوں کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں فوجی اہلکار لاک ڈاون نافذ کرانے کا کام کررہے ہیں۔ یہاں حکام نے شہریوں کے احتجاج اور جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ کئی جگہوں پر کووِڈ19 کی وجہ سے مجوزہ انتخابات موخر ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے اس سال مجوزہ صدارتی انتخاب ملتوی کردیا ہے۔اٹلی، شمالی میسیڈونیا، سربیا، سپین، برطانیہ اور اتھیوپیا میں صوبائی اور عام انتخابات میں تاخیرہوگئی ہے۔ کئی ممالک کی حکومتوں نے آن لائن ووٹر رجسٹریشن اور گھر بیٹھے ووٹ ڈالنے کا نظام متعارف کرانا شروع کردیا ہے۔ امریکا کے ایوان میں دو ممبران کے کووِڈ19 سے متاثر ہوجانے کے بعد اب یہاں آمنے سامنے کی میٹنگوں کے بجائے ورچیول (انٹرنیٹ کے ذریعے) میٹنگوں کے انعقاد کا رواج عام ہورہا ہے۔ ان مشکل حالات میں عام لوگوں نے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا شروع کردیا ہے۔ چین کے طلبا نے ووہان شہر کے اسپتالوں کے لئے سوشل میڈیا مومنٹ شروع کردی ہے۔

فلپائین کی یونیورسٹیوں اور شہری اداروں نے لاک ڈاون سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے فنڈز جمع کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ بھارت میں بھی صنعتوں کے مالکان، ملازم انجمنوں اور غیر سرکاری رضاکار تنظیمیں ضرورتمندوں کی مدد کررہے ہیں۔ کئی تنظیمیں بھکاریوں، ڈیلی ویجروں اور آوارہ کتوں کو خوراک فراہم کررہی ہیں۔

اب دُنیا میں ڈاکٹروں کے لئے نیا نطام تشخیص قائم کرنے کے آئیڈیاز پر کام ہونے لگا ہے تاکہ بیماری کی تشخیص اس کی علامات نمودار ہوجانے سے پہلے ہی کرنا ممکن ہوپائے۔ بیشتر ممالک اب ٹیلی میڈیسین پر انحصار کررہے ہیں۔ اس کی بدولت طبی عملے پر دباو کم ہورہا ہے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی بچت بھی ہورہی ہے۔ لوگ ہیلتھ انشورنس پر زیادہ پیسہ خرچ کرنے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام ممالک اپنے ہیلتھ کئیر نظام کو بہتر بنانے میں لگ گئے ہیں۔ بھارت میں بھی وینٹی لیٹرز اور اہم ادویات کی قلت پائی جارہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے حکومت نے متعلقہ صنعتوں کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب سڑکوں پر پہلے کی طرح احتجاج اور جلسے جلوس دیکھنے کو نہیں مل رہے ہیں۔ بلکہ اب لوگ اس ضمن میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ مصر جیسے ممالک میں شہری انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے مسائل کا اظہار کررہے ہیں۔ اس وقت اشیا کی قیمتوں میں اضافے، ایمرجنسی سپلائز کی سمگلنگ اور طبی آلات کی قلت جیسے مسائل پیدا ہوجانے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اس طرح کی متوقع صورتحال کے پیش نظر نائیجریا میں لوگ حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ انسداد کرپشن کے نظام کو مزید موثر بنائے۔

تمام ممالک کو چاہیئے کہ وہ وبا کو قابو کرنے سے متعلق اپنی حکمت عملی کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں۔ مثال کے طور پر اٹلی کے تجربات سے مصر استفادہ حاصل کرے۔ لیکن اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے ٹرمپ نے جرمنی کے ویکسین کو صرف امریکی شہریوں کو فراہم کرانے کی کوشش کی۔ چین نے بھی کووِڈ19 کے حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس دوران بھارت سارک سے جڑے ممالک کو یک جٹ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ بھارت کی جانب سے ایک غیر معمولی اقدام ہے۔ اہم ادویات دوسرے ممالک کو سپلائی کرنے کی وجہ سے بھی دُنیا بھر میں بھارت کے رُتبے میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تائیوان، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک نے اس وبا کے دوران اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائی ہیں۔ اس وائرس کی وجہ سے وہ عناصر جو عمومی طور پر سماج دشمن ہیں، بھی مدد کے لئےسامنے آرہے ہیں۔ طالبان نے عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کو اپنا تعاون دینے کا اعلان کیا ہے۔ برازیل میں مافیا سے جڑے لوگ لاک ڈاون کو نافذ کرانے میں تعاون دے رہا ہے۔

وائرس کی وجہ سے مختلف کلچرل تقریبات چھوٹے پیمانے پر اور کم لوگوں کی شرکت کے ساتھ منعقد کرنے کا رواج چل پڑا ہے۔ شراب نوشی اور سگریٹ نوشی میں کمی آسکتی ہے۔ لوگ اب بھیڑ بھاڑ والے شاپنگ مالز میں جانے کے بجائے آن لائن شاپنگ کرنے کو ترجیح دیں گے۔ گھروں میں زیادہ تر وقت اپنے افراد خانہ کے ہمراہ گزارنے کا رواج شروع ہوگیا ہے۔ کووِڈ19 کی وجہ سے دنیا میں سیکھنے کی طلب بڑھ رہی ہے۔ تعلیمی ادارے آن لائن سیکھنے کے پلیٹ فارمز میں تبدیل ہورہے ہیں۔ حکومت بھی انتظام و انصرام چلانے کے حوالے سے آن لائن نظام کو اپنا رہی ہیں۔ ’بگ ڈاٹا‘ اور ’آرٹی فیشل انٹیلی جنس‘ جیسی ٹیکنالوجی کی حامل چیزیں حکومت کو لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ روبرٹس کا استعمال اور ٹیلی میڈیسین کا رواج شروع ہونے والا ہے۔

اب اس نازک دور میں بنی نوع انسان کو یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا اکیلے سفر کرنا چاہیے یا پھر پوری دُنیا کو یکجہتی کے ساتھ چلنا چاہیے۔ اگر ہم علاحدہ علاحدہ چلیں گے تو اس کے نتیجے میں بحران میں مزید شدت پیدا ہوگی۔ لیکن پوری دُنیا یکجہتی کا مظاہرہ کرے گی تو نہ صرف کورونا وائرس پر فتح پائی جاسکتی ہے، بلکہ مستقبل میں آنے والی وباؤں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔

اس وقت ہم دولت کی تقسیم میں غیر معمولی تفاوت دیکھ رہے ہیں۔ ایک فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت جمع ہے جتنی باقی 99فیصد لوگوں کے پاس کل ملا کر ہے۔ لیکن وبا کے بعد یہ شرح بھی تبدیل ہوجائے گی۔ وبا کے بعد اسی فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہوگی، جتنی باقی بیس فیصد کی مجموعی دولت ہوگی۔ یعنی کچھ حد تناسب پیدا ہوجانا شروع ہوگا۔ امریکی ماہر سماجیات اور ماہر سیاسیات تھیدا سکوپل کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس موجودہ معاشی استحکام قائم نہیں رہے گا۔ وہ کنبے جن کے واحد کفیل ہیں، بری طرح متاثر ہوجائیں گے۔ سپلائی اور تعمیرات کی انڈسٹری سے جڑے لوگ بھی متاثر ہوجائیں گے۔ یل یونیورسٹی کے پروفیسر آف ہسٹری پال فریڈمین کا کہنا ہے کہ اب آنے والے کئی سال تک لوگ گھر سے باہر کھانا چھوڑ دیں گے بلکہ اپنے گھروں میں ہی کھانے پکانے کو ترجیح دیں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.