امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 29 مئی 2020 کو وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ امریکہ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ صحت) کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرے گا اور اس کے لیے مختص فنڈز کو دیگر اہم عالمی طبی شعبوں کو منتقل کرے گا۔
دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک ہفتہ قبل عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آئندہ تیس دنوں کے اندر اس ادارے میں بنیادی اصلاحات کی جائیں۔ ٹرمپ کا متذکرہ اعلان بظاہر اسی ضمن میں کیا گیا ہے۔
اپنے ملکی ترجیحات کے تناظر میں یک طرفہ فیصلے کرنا ہمیشہ امریکی انتظامیہ کا رویہ رہا ہے، اکتوبر 2017 میں بھی امریکہ نے اقوام متحدہ کی تعلیمی، سماجی اور کلچرل تنظیم، یونیسکو (یو این ای ایس سی او) سے علاحدگی اختیار کرلی۔ یہ تنظیم نومبر 1945ء میں قائم کی گئی ہے۔
ایک مشہور امریکی مصنف اور یونیسکو کے اولین گورننگ بورڈ کے رکن ارچبالڈ میک لیش نے اس عالمی تنظیم کا منشور مرتب کیا تھا۔ اس منشور کی ایک سطر میں لکھا گیا ہے کہ 'چونکہ جنگ بنیادی طور پر انسانی ذہن کی پیداوار ہوتی ہے اس لیے امن کے تحفظ کی سوچ بھی انسانی ذہن میں موجود رہنی چاہیے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یونیسکو کو چھوڑنے کا فیصلہ مبینہ طور پر اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ اس عالمی تنظیم کے اخراجات بڑھ گئے، اس تنظیم میں اصلاحات کی ضرورت پیدا ہوگئی اور اس میں اسرائیل مخالف جانبداری کا رجحان پیدا ہوگیا تھا۔
جون 2018 میں امریکہ نے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل (ایچ آر سی) سے علاحدگی اختیار کرلی۔ یہ کونسل ستمبر 2005 میں اقوام متحدہ کی 60 ویں سالگرہ پر رکن ممالک کے اتفاق رائے سے تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم مئی 2006 میں امریکہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس کونسل کی تشکیل سے متعلق پیش کی گئی قرار داد کی مخالفت کی تھی کیونکہ یہ رائے پیدا ہوگئی تھی کہ اس کونسل میں اُن ممالک کو رکن منتخب ہوجانے سے نہ روکا جائے گا جو امریکہ کی نظر میں 'انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں' کے مرتکب ہورہے ہوں۔
ہیومن رائٹس کونسل نے سال 2006 اور 2009 کے دوران قواعد و ضوابط مرتب کئے۔ ان میں فلسطین اور دیگر مقبوضہ عرب خطوں میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق بھی ایجنڈا (ایجنڈا 7 کے نام سے) طے کیا گیا۔
امریکہ نے انسانی حقوق کونسل کے 2006 کے انتخابات میں شمولیت نہیں کی اور وہ اُن میٹنگوں میں شامل نہیں رہا جن میں (ایجنڈا 7 کے تناظر میں) اسرائیل سے متعلق ایجنڈا طے کرنے کے لیے گفت و شنید ہورہی تھی۔ اس لحاظ سے یہ ستم ظریفی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ہیومن رائٹس کمیشن کو 'اسرائیل کے خلاف دائمی جانبدار' قرار دیتے ہوئے اس 47 رکن ممالک پر مشتمل تنظیم کو چھوڑ دیا۔
جہاں تک عالمی ادارہ صحت کا تعلق ہے، اس ضمن میں یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس 193 رکن ممالک پر مشتمل اس عالمی تنظیم کو چھوڑنے سے پہلے اس میں کون سی 'بنیادی اصلاحات' کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اپنے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ 'عالمی ادارہ صحت پر چین کا مکمل کنٹرول ہے اور چین نے اس عالمی تنظیم کو دباؤ میں لا کر اُس وقت دُنیا کو گمراہ کیا جب چینی حکام نے پہلی بار کورونا وائرس کو پایا تھا۔ لیکن دوسری جانب ٹرمپ نے 24 جنوری کو ایک ٹویٹ میں خود ہی کہا تھا کہ 'چین کورونا وائرس کو قابو کرنے کے لیے سخت محنت کررہا ہے۔ 'اس کے بعد کورونا وائرس سے متعلق ایک پریس کانفرنس میں 29 فروری کو ٹرمپ نے خود ہی یہ بھی کہا کہ 'لگتا ہے کہ چین کو کورونا وائرس کو قابو کرنے میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ریکارڈ کے مطابق جب چین نے 31 دسمبر 2019 کو ووہان شہر میں کورونا وائرس کا پہلا کیس پایا تو اس کے ایک دن بعد ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین کو وائرس سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے ایک منیجمنٹ سپورٹ ٹیم تشکیل دی۔
امریکہ 34 رکن ممالک پر مشتمل ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے گورننگ ایگزیکٹیو بورڈ میں 2018 سے 2021 تک کے لیے ایک منتخب رکن ہے۔ اس بورڈ کی میٹنگ 3 تا 6 فروری 2020ء کو ہوئی تھی جس میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش کے ڈائریکٹر جنرل نے کووِڈ 19 کے بارے میں تفصیلات جاری کیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس میٹنگ میں کووِڈ 19 کے حوالے سے چین کے ریسپانس کا جائزہ لینے کے لیے امریکی حکومت میں صحت کے شعبے کے اسسٹنٹ سیکرٹری ایڈمائرل بریٹ گرور کو نامز کیا تھا۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ اس ضمن میں امریکی سینٹ کی جانب سے اس نامزدگی کی بروقت منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
ایڈمائرل بریٹ کی نامزدگی کو سینٹ نے 22 مئی 2020 کو اپنی منظوری دی۔ اس کے بعد ہی وہ پہلی بار بورڈ کی میٹنگ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے میٹنگ میں اس عالمی تنظیم میں 'اصلاحات' کرنے پر زور دیا تاکہ یہ بات یقینی بنائی جاسکے کہ آئندہ اس طرح کی وبا نہ پھیلے۔ انہوں نے اس ضمن میں 'غیر جانبداری سے، آزادانہ طور اور وسیع پیمانے پر جائزہ لینے پر زور دیا۔
ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے علاحدہ کرنے کے لیے پہلے دو شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔ یہ دونوں شرائط 1948 میں امریکی کانگریس کی جانب سے امریکہ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں شمولیت کی منظوری دینے کے فیصلے سے جڑی ہوئی ہیں۔
ان میں پہلی شرط یہ ہے کہ امریکہ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے علاحدہ ہوجانے کے لیے ایک سال پیشگی نوٹس دینی ہوگی۔ یعنی اب امریکہ اگلے سال کے وسط میں ہی اس عالمی تنظیم سے علاحدہ ہوسکتا ہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اسے رواں مالی سال کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو وہ فنڈز فراہم کرنے ہوں گے جن کا وہ وعدہ بند ہے۔ یعنی باوجود اس کے امریکی صدر نے اعلان کیا کہ وہ عالمی ادارہ صحت کے لیے مختص فنڈز کو صحت سے متعلق دیگر عالمی طبی شعبوں کے لیے منتقل کریں گے۔ اسے رواں برس کے لیے ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن کو رواں مالی سال کے لیے فنڈز فراہم کرنے ہی ہو ں گے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ اس تنظیم کو سال 2020 اور 2021 میں 236.9 ملین ڈالر لازمی تعاون اور 656 ملین ڈالر رضاکارانہ تعاون دینے کا پابند ہے۔
امریکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو فنڈز فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، یہ اس عالمی ادارہ صحت کے سالانہ بجٹ کو 22 فیصد فنڈز فراہم کرتا ہے۔ اس کے کنٹری بیوشن کا غالب حصہ ( یعنی 27.4 فیصد) دُنیا میں پولیو کی روک تھام کے لیے خرچ ہوتا ہے، 17.4 فیصد غذائیت کی فراہمی کی خدمات پر 7.4 فیصد ویکسین کے ذریعے بیماریوں کو علاج و معالجہ کرنے اور 5.74 فیصد تپ دق کی بیماریوں کی روک تھام پر خرچ کیا جاتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے عالمی ادارہ صحت سے علاحدہ ہوجانے کے نتیجے میں دیگر رکن ممالک کو یہ موقع فراہم ہوگا کہ وہ عالمی سطح پر درپیش صحت سے جڑے معاملات میں اپنا تعاون فراہم کریں۔ اب ڈبلیو ایچ او کی توجہ کووِڈ 19 کے لیے ویکسین تیار کرنے اور اسے تقسیم کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔
جنیوا میں منعقدہ ڈبلیو ایچ او کی حالیہ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی (ڈبلیو ایچ اے) میں یورپی یونین اور چین نے اپنی خدمات پہنچانے کی تجویز پیش کی۔ 19 مئی 2020 کو ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں کووِڈ 19 سے متعلق جو قرارداد پاس کی گئی، اس کی بھارت سمیت 130 ممالک نے حمایت کی تھی، اس قرار داد کی رو سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو کوِوڈ 19 سے متعلق عالمی سطح پر تعاون یقینی بنانے، ویکسین اور طبی آلات پہنچانے کا کردار تسلیم کیا گیا۔
اس قرار داد میں واضح کیا گیا کہ سب کو ویکسین کی شفافیت کے ساتھ، منصفانہ طریقے سے اور بر وقت رسائی ہوگی۔ امریکہ کی جانب سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا مالی تعاون روکنے کے نتیجے میں اس ادارے کی کارگردگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکہ نے 29 مئی 2020 ء کو یہ اعلان کرنے سے پہلے ہی سات ممالک کی نشاندہی کی تھی، جہاں امریکہ طبی شعبوں میں کووِڈ 19 اور پولیو کی روک تھام کے لیے فنڈز فراہم کرے گا۔ ان ممالک میں افغانستان، مصر، لیبیا، پاکستان، شام، سوڈان اور ترکی شامل ہیں۔ ان ممالک میں طبی شعبوں کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے لیے امریکی فنڈنگ میں کٹوتی کی سفارش کی تھی۔
بھارت کو کووِڈ 19 سے متعلق چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو دو دہائی قبل ایچ آئی وی اور ایڈز کے بحران سے نمٹنے کے دوران بین الاقوامی تعاون کے ثمرات اور بہتر نتائج کا تجربہ ہوا ہے۔ اُس موقع پر بھارتی فارماسیوٹیکل کمپنی (سِپلا) کو ان امراض کا سستا علاج فراہم کرنے کے لیے عمومی ادویات استعمال کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔
اس بات کا امکان ہے کہ بھارت کے مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن ایک سال کی مدت کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹیو بورڈ کے صدر ہوں گے۔ اس طرح سے بھارت کو کووِڈ 19 کے چیلنج سے نمٹنے میں عالمی تعاون حاصل کرنے میں مزید مواقع میسر ہوں گے۔
اس کے نتیجے میں بھارت اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے روایتی تعاون کو مزید وسعت ملے گی۔ بھارت اور عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے ساؤتھ ایسٹ ایشیا ریجنل آفس (ایس ای اے آر او) کے ہیڈ کوارٹر جس کی سربراہی بھارت کی ڈاکٹر پونم کھیترپال سنگھ کررہی ہیں، کو بھی کافی مدد پہنچے گی۔
ساؤتھ ایسٹ ایشیا ریجنل آفس اس وقت بھارت میں کام کررہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سولہ سو ماہرین صحت کی بھی نگرانی کررہا ہے۔