ریاست اترپردیش میں پرائمری ٹیچر کی تقرری کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف شکشامتروں کی اپیل کی سماعت کے دوران پہلے تو سپریم کورٹ نے عرضی خارج کرنے کا زبانی حکم سنا دیا۔
اس کے چند منٹ بعد ہی پھرسے سماعت کرتے ہوئے ترمیمی حکم کے ساتھ ریاستی حکومت نوٹس جاری کیا۔
جسٹس اودے امیش للت،جسٹس ایم ایم شانتن گودر اورجسٹس وینیت سرن کی بینچ نے عرضی گزار’اترپردیش پرائمری شکشامتر اسوسی ایشن‘ کی جانب سے پیش سینئر وکیل مکل روہتگی کی دلیلں سننے کے بعد عرضی خارج کرنے کا زبانی حکم سنا دیا ۔
تاہم کچھ قانونی پہلوؤں پر توجہ دلائے جانے کے بعد سماعت پھر سے شروع ہوگئی۔
سینئروکیل دشینت دوے اور اے سدنرم ویڈیا کانفرنسنگ اسکرین پر زبانی حکم جاری ہونے کے بعد دکھائی دئے اور انہوں نے اپنی دلیلیں شروع کیں۔
اس کے بعد عدالت نے عرضی خارج کرنے کے اپنے زبانی حکم میں ترمیم کی منشا ظاہر کی۔سماعت پھرسے کچھ دیر بعد شروع ہوئی اور سالیسیٹر جنرل اور دیگر وکیلوں کی دلیلیں سننے کے بعد عدالت نے ریاستی حکومت اور دیگر عرضی گزاروں کو نوٹس جاری کیا اور اس کے جواب کےلئے 14 جولائی تک کا وقت دیا۔
سماعت کے شروع میں عرضی گزاروں کی جانب سے مسٹر روہتگی نے دلیل دی کہ سنگل بینچ نے عرضی گزاروں کے دعوے کی حمایت میں فیصلہ کیا تھا،لیکن بینچ نے شکشا متروں کا موقف پوری طرح نہیں سنا۔
انہوں نے کہا کہ شکشا متروں کا مطالبہ ان کے ٹھیکے کے رینیوکے سلسلے میں بھی ہے اور تقرری کے عمل میں مسلسل کی گئی تبدیلی کے سلسلے میں بھی۔
جسٹس للت نے مسٹر روہتگی سے پوچھا،’’کتنے انسٹرکٹرس کی تقرری ہوئی تھی؟‘‘ مسٹر روہتگی نے جواب دیا ،30 ہزار۔ریاستی حکومت نے انسٹرکٹرس کے بجائے 69000 پرائمری ٹیچروں کی نئی آسامی نکالی ہے۔
امتحان کے بعد نیا کٹ آف بھی طے کیا۔ لیکن ان کی دلیلوں سے غیر مطمعین بینچ نے عرضی خارج کرنے کا زبانی حکم سنایا۔
تھوڑی دیر میں مسٹر دوے اور مسٹر سدنرم کے اسکرین پر دکھنے کے بعد حالات پلٹ گئی اور بینچ کو اپنے زبانی حکم فی الحال ٹالتے ہوئے سماعت دوبارہ شروع کرنی پڑی۔
بینچ نے کہا کہ اس معاملے میں اتنے موقف ہیں کہ ان سبھی کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ سننا مشکل ہوگا۔
جسٹس للت نے کہا،’ہم معاملے میں کوئی عبوری حکم یا حالات برقرار رکھنے کا حکم جاری نہیں کریں گے۔
ایسا حکم جاری کرنے سے پہلے ہمیں مطمعین ہونا ہوگا اور ابھی ہم کسی بھی دلیل سے مطمعین ہونا ہوگا اور ابھی ہم کسی بھی دلیل سے مطمعین نہیں ہوئے ہیں۔
کچھ شکشا متروں کی جانب سے سینئر وکیل گوپال سبرمنیم نے دلیلیں دینی شروع کیں۔انہوں نے شکشا متروں کی تعریف اور حکمت عملی بتائی۔انہوں نے ہائی کورٹ کی سنگل بینچ اورآئینی بینچ کے فیصلوں کی قانونی باریکیاں کورٹ کو بتائیں۔مسٹردوے نے عرضی گزارشکشا متر سنجیو تیواری کی جانب سے دلیل دی۔انہوں نے اپنے موئکل کے پچھلے ڈیڑھ دہائی سے پڑانے کا دعوی کیا۔انہوں نے کہا کہ 69 ہزار ٹیچروں کی بھرتی کے اشتہار میں کٹ آف کا ذکر نہیں تھا۔اب عدالت نے مسٹر مہتا سے پوچھا،’’میرٹ کے نام پردیگر اصول کیوں بدلے؟انہوں نے کہاکہ وہ کل اس سلسلے میں حکومت سے ہدایت لےکر عدالت کو بتائیں گے۔
اس کے بعد عدالت نے کہا،’’ہم پھر سبھی عرضی گزاروں پر نوٹس جاری کررہے ہیں۔ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ تقرری کے عمل کے اصول امتحان سے پہلےیا بعد میں بدلنا کتنا صحیح یا غلط ہے۔‘‘
اس دوران سینئر وکیل راجیو دھون نے دلیل دی کہ امتحان کے نتیجہ 40 اور 45 فیصدی کے میرٹ کی بنیاد پر ہی پھر سے جوڑے جائیں۔ایساکیوں کہ پہلے امتحان کسی اور بنیاد پر اور دوسرے کسی اور بنیاد پر؟اس پر مسٹر مہتا نے کہاکہ یہ لوگ باصلاحیت امیدواروں پر کم صلاحیت والوں کو قابض چاہتے ہیں۔
اس کے بعد عدالت نے اترپردیش حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کئے،اور اس کے جواب کےلئے 14 جولائی کی تاریخ مقرر کی۔ریاستی حکومت یہ بتائے کہ 45 فیصد عام اور ریزرو کوٹے کےلئے 40 فیصد کی بنیاد کو کیوں بدلا گیا؟ریاستی حکومت چھ جولائی تک چارٹ کے ذریعہ سارے مرحلے اور تفصیل بتائے۔ وکیل گورو یادو کی جانب سے دائر اس عضی میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے یا اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے ریاستی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک کیوئیٹ داخل کی گئی تھی،جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ اس کا موقف سنے بغیر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر کوئی حکم جاری نہ کرے۔
اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔اس کے بعد ریاست میں بیسک ایجوکیشن کونشل کے اسکولوں میں اسسٹنٹ ٹیچروں کی بھرتی کا راستہ صاف ہوگیاتھا۔اترپردیش میں ٹیچروں کی بڑے پیمانے پر ہونے والی بھرتی لٹکی ہوئی تھی۔
ایسا کٹ آف مارکس سے متعلق تنازع کی وجہ سے تھا۔اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے کٹ آف بڑھانے کے فیصلے کو صحیح بتایاتھا۔اس کے علاوہ اس بھرتی عمل کو تین مہینے کے اندر پورا کرنے کا حکم بھی دیاتھا۔