بیگم حضرت محل کی پیدائش 1820ء میں فیض آباد میں ہوئی تھی۔ ان کے بچپن کا نام 'محمدی خانم' تھا۔ بچپن میں ہی ان کے والدین نے انہیں فروخت کر دیا تھا، جس کے بعد انہیں نے طوائف کا پیشہ اپنانا پڑا، بعد انہیں شاہی حرم میں داخل کیا گیا۔
بیگم حضرت محل اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی دوسری بیوی تھی۔ نواب واجد علی شاہ نے انہیں 'بیگم' کا خطاب دیا اور جب ان کے بیٹے برجیس قدر کی پیدائش ہوئی تو انہیں نے 'حضرت محل' کا خطاب سے نوازا گیا۔ 1856 میں انگریزوں نے نواب واجد علی شاہ کو ایک 'معاہدے' پر دستخط کرنے کو کہا لیکن واجد علی نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ "میں صرف نام کا نواب نہیں رہنا چاہتا۔"
اس کے بعد انہیں کلکتہ بھیج دیا گیا۔ 9 جولائی 1857 میں بیگم حضرت محل نے اپنے نابالغ فرزند رمضان علی برجیس قدر کو چاندی والی بارہ دری میں تخت نشین کرایا۔ شام کو تیز بارش میں 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ بیگم حضرت محل 'راج ماتا' بنیں۔
اس موقع پر انہوں نے اپنے بیش قیمتی زیورات ملک کی خدمات میں پیش کر دیے، جب لکھنؤ میدان جنگ بن گیا اور چنہٹ، سکندر باغ، قدم رسول، شاہ نجف امام باڑہ، بیگم کوٹھی، بڑا امام باڑہ، آصفی مسجد، ریزیڈنسی میں زبردست جنگ ہوئی۔ جس کے نتیجے میں 75 ہزار لوگوں قتل ہوگیا۔ قابل ذکر ہے کہ لکھنو میں بیگم حضرت محل کی ایک فوج خواتین کی تھی، جس کی رہنمائی 'رحیمی' کر رہی تھیں۔ انہوں نے مرد فوجیوں کی طرح وردی پہن کر تمام خواتین کو توپ اور بندوق چلانا سکھایا۔
ان کی قیادت میں خواتین نے کئی محاذوں پر انگریزوں سے مقابلہ کیا اور انہیں شکست بھی دیا۔ آج جس میدان میں بیگم حضرت محل پارک بنا ہوا ہے، 1857 میں یہاں پر بیگم حضرت محل اور انگریزوں کے مابین مقابلہ ہوا تھا، جس میں بیگم کے فوجیوں نے انگریز 'کمانڈر ان چیف جنرل نیل' گھوڑے پر سوار تھا، تبھی بیگم کے فوجیوں نے توپ کے گولے سے جنرل نیل کو اڑا دیا تھا۔ اس کے بعد انگریزی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ کر ریزیڈنسی میں پناہ لی تھی۔ یہاں بھی بیگم کے فوجیوں نے ریزیڈنسی کا محاصرہ کر لیا اور تقریباً تین ماہ تک بیگم کی فوج اور انگریزوں کے مابین جنگ چلتی رہی۔
بدقسمتی سے دس ماہ بعد اسی میدان میں انگریزی فوج نے بھی بیگم کے فوجیوں کو شکست دی۔ 5000 وفادار ہندو اور مسلم مجاہدین اس میدان کارزار میں اپنی جانیں وطن پر قربان کر دیئے لیکن ان میں سے ایک بھی فرار نہ ہوا۔ بیگم حضرت محل نے جب یہ صورتحال دیکھی تو پردے سے باہر نکل آئیں مگر عین وقت پر مولانا احمد شاہ اللہ 2000 جانبازوں کو لے کر انگریزوں کا گھیرا توڑ کر بیگم اور ان کے فرزند برجیس قدر کو باہر نکال لے گئے۔
اس کے بعد بیگم حضرت محل کو بھارت کے کسی بھی مقام پر ٹھکانہ نہیں ملا، تب مجبوری میں انہیں نیپال میں پناہ لینی پڑی۔ وہاں کے بادشاہ نے انہیں پانچ سو روپے ماہانہ خرچ کے لیے پینشن دیا لیکن بدلے میں بیگم حضرت محل کے تمام قیمتی زیورات کو اپنے پاس رکھ لیا۔
مزید پڑھیں:
کولکاتا: نعمت اللہ شاہ مسجد، مذہبی رواداری کا گہوارہ
بیگم حضرت محل کی قبر نیپال کے کاٹھمنڈو شہر میں آج بھی موجود ہے، لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ بیگم حضرت محل کو اپنے ملک میں دو گز زمین دفن کے لیے نہیں ملی۔ آج ان کی قبر پھٹپاتھ پر ہے، جسے بیگم حضرت محل نے تعمیر کرائی تھی۔