پروفیسر اختر حسیب نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'ماہنامہ تہذیب الاخلاق اس کام کو بہ حسن و خوبی سے انجام دے رہا ہے کہ وہ نوجوان قارئین کو ان اہم مفکرین اور دانشوروں کے کام سے روشناس کرا رہا ہے کہ جن کی اردو ادب اور فکر میں شاندار خدمات رہی ہیں'۔
پروفیسر حسیب نے نوجوان نسل پر زور دیا کہ 'وہ سرسید احمد خان، علامہ اقبال اور دیگر مفکرین اور ادیبوں کی تعلیمات اور فکر و فلسفہ پڑھیں'۔
پروفیسر عبدالرحیم قدوئی (ڈائریکٹر ، کے اے نظامی مرکز برائے علوم القرآن) نے کہا کہ 'خصوصی تہذیب الاخلاق میں اقبال کی فلسفیانہ شاعری اور ان کی ادبی تخلیقات کے مختلف پہلوؤں پر 24 انتہائی اہم اور مفید مضامین موجود ہیں'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'خصوصی شمارہ کا انتساب مرحوم پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی جانب کیا گیا ہے ، جنہوں نے علامہ اقبال پر بڑے پیمانے پر تحریری کام کیا تھا۔
ماہنامہ تہذیب الاخلاق کے سابق ایڈیٹر پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے علامہ اقبال کو مغربی دنیا سے متعارف کرانے کے سلسلے میں پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ کی خدمات کو سرہاتے ہوئے کہا کہ وہ ایک برطانوی مستشرق ہونے کے ساتھ علم دوست تھے'۰
پروفیسر قاسمی نے اقبال کی کتاب '' اسرارِ خودی '' کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اقبال کا فلسفہ ' خودی ' اور خود شناسی ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقبال کے کام کو کسی خاص تناظر یا مخصوص اصول کے ساتھ پرکھا جانا غلط ہوگا کیونکہ وہ ایک تخلیقی شاعر تھے۔ علامہ اقبال نے نوجوانوں کو نہایت ہی موثر انداز میں خودی کا درس دیا ہے'۔
پروفیسر ابو سفیان اصلاحی (مدیر تہذیب الاخلاق) نے کہا کہ اقبال کا سرسید احمد خان اور ان کے وژن سے گہری فکری وابستگی اور جذباتی رشتہ ہے'۔
پروفیسر اصلاحی نے اے ایم یو سے اقبال کے تعلق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اقبال اے ایم یو کورٹ کے ممبر تھے ، جنھیں یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی ڈگری بھی دی گئی تھی'۔
پروفیسر عبید اللہ فہد نے کہا کہ 'بلاشبہ اقبال ملک کے فکری اور ثقافتی تعمیر نو اور اسلامی فکر و فلسفہ کے فروغ میں حصہ لینے والے عظیم شاعروں اور فلسفیوں میں سے تھے ، وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے'۔