یہ جلسہ بنگلور میں واقع حسنات کالج کے فاؤنڈرز ہال میں منعقد کیا گیا۔
اس موقع پر تنظیم کی صدر شائستہ یوسف نے اردو کے زوال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ مسلمانوں نے اردو کو اپنا تو لیا ہے لیکن ابھی بھی اس زبان کو مواصلات میں استعمال کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
اُن کے مطابق اگر برسوں قبل ہی ہم اردو زبان کو اپنی شان بناتے تو شاید اردو کا یہ حال نہ ہوتا۔
انہوں نے اردو داں کے اس رویہ پر تنقید کی جہاں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اردو کی تعلیم سے ہم اس مسابقتی دور میں پیچھے رہ جائیں گے۔
شائستہ یوسف نے کہا کہ خوبصورت اور شیریں زبان ہونے کے سبب ہی اردو بھارت کی زبان بنی ہے، لہٰذا آج ملک میں اگر امن کا کوئی انقلاب آسکتا ہے تو وہ اردو زبان و ادب سے ممکن ہے۔
اس موقع پر حیدرآباد کے معروف قلمکار آنند راج ورما جنہوں نے اس پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل اردو سے آشنا ہو، اردو کو صرف بول چال والی زبان نہ بناکر اسے اپنی تہذیب کے طور پر اختیار کریں تو یقیناً ہم پورے معاشرے میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔
آنند راج ورما نے ہندو مسلم ایکتا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندو مسلم کے درمیان محبت ورواداری میں اضافہ ہوا ہے، لیکن کچھ شرپسند عناصر ہیں جو اس ہم آہنگی اور محبت کو توڑنے میں مصروف ہیں ،ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔
ریٹائرڈ آی اے ایس افسر عزیز اللہ بیگ نے اس موقع پر بتایا کہ سرکاری اردو اسکولوں کی خستہ حالت بھی اردو کے زوال کی ایک بنیادی وجہ ہے۔
سبکدوش آئی اے ایس افسر عزیز اللہ بیگ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت اردو اسکولوں کے حالات کو بہتر بنائے اور اس معاملے میں حکومت اردو اسکولوں کے متعلق منصفانہ رویہ اختیار کرے۔