ETV Bharat / bharat

پانی کی کمی دنیا کے لئے لمحہ فکریہ - پانی کی کمی دنیا کے لئے لمحہ فکریہ

پانی کا شدید بحران ہمارا انتظار کررہا ہے۔پینے کے پانی کے جتنے بھی وسائل ہیں وہ کئی وجوہات سے ناکارہ ہورہے ہیں۔ہمیں اس بارے میں بہت حساس اور محتاط رہنا ہوگا ۔ہمیں کئی طرح کے ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمیں منہ دھونے کے لئے بھی پانی میسر نہ ہو۔پچھلے موسم گرما میں تمل ناڈو اور مہاراشٹر میں ہونے والی پانی کی قلت سے ہم سب واقف ہیں۔ سرکاروں کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہندوستان 2022 تک ایسے ممالک میں شامل ہوسکتا ہے جہاں پانی کا شدید ترین بحران ہے۔جل شکتی کے وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت نے کہا ہے کہ اس بحران کے لئے ہماری سرکاریں اور عوام دونوں ذمہ دار ہیں۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہمارے ملک میں حقوق کی بات تو ہوتی ہے مگر فرائض کی بات نہیں ہوتی ہے۔ شیخاوت کے اس دعوے سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بنگلورو اور چنئی کیپ ٹاؤن میں شامل ہوسکتے ہیں

پانی کی کمی دنیا کے لئے لمحہ فکریہ
author img

By

Published : Nov 7, 2019, 11:41 AM IST

کیپ ٹاؤن نے عالمی درجہ حرارت میں اضافے اورآب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کا تجربہ کیا ہے18-2017 میں پیدا ہونے والے پانی کے بحران جس میں لگ بھگ چالیس ہزار لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں تھا اور وہ کئی دن تک پانی کو ترستے رہے اس سے دنیا کو سبق حاصل کرنا چائیے۔ پانی کے بحران کی وجہ سے اس شہر کے باشندوں کوایک دن صرف50 لیٹر پانی کی سپلائی دی جاتی تھی جو امریکہ میں صرف ایک آدمی نہانے میں استعمال کرتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے انعامات کا اعلان کیا گیا جو کپڑے نہ دھو کر پانی کی بچت کرتے۔حکومت نے ریستورانوں،دوکانوں اور عوامی بیت الخلا میں پانی کا کم سے کم استمال کرنے کی کزارش کی۔ میونسپلٹی نے پانی کی فراہمی بند کردی اورپانی کے زیاں پر نظر رکھنے کے لئےواٹر پولیس نے گھروں پر چھاپے مارے اور بھاری جرمانے عائد کئے۔


بحرالکاہل میں سمندری درجہ حرارت معمول کی سطح سے اوپر بڑھ جاتا ہے توآب وہوا کے دباوٗ کو ایل نینو کہاجاتا ہے جب درجہٗ حرارت بڑھا تو جنوبی افریقہ کو شدید قحط کا سامنا کرنا پڑا۔پانی کے جتنے بھی ذخائر تھے وہ پانی کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکے۔اسی طرح کیپ ٹاوؐن کو پانی کے اس بحران سے گزرنا پڑا۔ ایک طرف آبادی میں اضافے سے پانی کی ضرورت بڑھی اور دوسری طرف موسمیاتی تبیدیلی کی وجہ سے بھی یہ بحران پیدا ہوا اور اس پہ ستم یہ کہ حکومتی ادارے بھی اپنی ذمہ داری نہ نبھا سکے۔


کیپ ٹاوؐن جنوبی افریقہ کے جنوبی ساحل پر واقع ایک بندر گاہی شہر ہے ۔یہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے یہ وہ جگہ ہے جاں نیلسن منڈیلا کو ایک بار جیل میں رکھا گیا تھا۔ ہر سال بیس لاکھ سیاح کیپ ٹاوؐن جاتے ہیں۔کیپ ٹاوؐن کی معیشت میں سیاحت کا اچھا خاصا اثر پڑتا ہے ۔یہ آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔تقریبا 330 ڈالر سالانہ آمدنی صرف سیاحت کے اس شعبے سے ہوتی ہے۔ پانچ ستارہ ہوٹلز ،خوبصورت ساحل ،عمدہ بندرگاہیں ،کیبل کار،جزیرے،ریسٹورینٹ،سائیکل ریس،کرکٹ اور رگبی یہاں کے یہاں آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب آپ کے پاس پانی کے ذخائر ہوں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے ان سب چیزوں پر بھی گہرا اثرا پڑا۔ پانی کی کمی کی وجہ سے سیاحت بھی متاثر ہوئی اور معیشت سست روی کا شکار ہوکررہ گئی ۔اور ایک ایسا علاقہ جس نے ترقی کی منزلیں طے کرنے میں ایک عمر لگائی تھی اور وہ دنیا کا خبوصورت ترین علاقہ تھا صرف پانی کے نہ ہونے کی وجہ سے سب کچھ ختم ہوگیا۔برسوں کی ترقی پانی کے نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوگئی۔

ہوسکتا ہے کسی کو کیپ ٹاوؐن کے بحران سے لاتعلقی محسوس ہو لیکن یہ دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔برازیل میں ساوؐ پالو پانی کی شدید قلت کی طرف بڑھ رہا ہے اور اسی طرح ہندوستان کا شہر بنگلور بھی۔بیجنگ ، قاہرہ اور ماسکو کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ ہم سب چنئی میں ہونے والے پانی کے بحران سے واقف ہیں۔ آج بھی رہائشی علاقے کا انحصار پانی کے ٹینکوں پر ہی ہے۔آزادی کے وقت فی کس پانی کی دستیابی پانچ ہزار مکعب میٹر تھی جو 2018 میں گر کر 1520 رہ گئی ہے۔ہم جنگلات کاٹ رہے ہیں اور ترقی کے نام پر جھیلوں پر تجاوزات کررہے ہیں۔مون سون کا وقت پر نہ آنا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔اور اگر وقت پر پانی برس بھی جائے تو ہمارے پاس بارش کے پانی کو جمع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔اس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح میں کمی آئی ہے۔تلنگانہ حکوت کے ذریعے شروع کیا گیا مشن کتیہ اور مشن بھاگیرتھ ایسے سنگین حالات میں امید کی کرن ہیں۔


اگر چہ پانی زمین کے 80 فی صد علاقے میں پانی ہے لیکن اس میں صرف تین فی صد پانی ہی میٹھا ہے۔دنیا کی آبادی 800 کروڑ ہے اور اس میں سے لگ بھگ ایک کروڑ لوگ بغیر پانی کے اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے 270 کروڑ لوگوں کو زندگی گزارنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔دنیا بھر مین 500 شہر جن میں کچھ شہر ہندوستان کے بھی ہیں پانی کے بحران کے دہانے پر کھڑئے ہیں۔ ہر سال بارش کم ہورہی ہے اس سے زرعی پیداوار میں کمی ہورہی ہے۔نالیاں گندے نالوں میں بدل رہی ہیں۔ اگر کسی دریا پر تجاوزات کئے جاتے ہیں تو آس پا س کی جھیلیں مرجائیں گی۔اس وقت آب و ہوا کی تبدیلی کے تناظر میں ، پانی کے تحفظ اور انتظام کی انتہائی اہم ضرورت ہے جس پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔ ہر شہری کو ابھرنے والے پانی کے اس بحران سے بچنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

کیپ ٹاؤن نے عالمی درجہ حرارت میں اضافے اورآب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کا تجربہ کیا ہے18-2017 میں پیدا ہونے والے پانی کے بحران جس میں لگ بھگ چالیس ہزار لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں تھا اور وہ کئی دن تک پانی کو ترستے رہے اس سے دنیا کو سبق حاصل کرنا چائیے۔ پانی کے بحران کی وجہ سے اس شہر کے باشندوں کوایک دن صرف50 لیٹر پانی کی سپلائی دی جاتی تھی جو امریکہ میں صرف ایک آدمی نہانے میں استعمال کرتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے انعامات کا اعلان کیا گیا جو کپڑے نہ دھو کر پانی کی بچت کرتے۔حکومت نے ریستورانوں،دوکانوں اور عوامی بیت الخلا میں پانی کا کم سے کم استمال کرنے کی کزارش کی۔ میونسپلٹی نے پانی کی فراہمی بند کردی اورپانی کے زیاں پر نظر رکھنے کے لئےواٹر پولیس نے گھروں پر چھاپے مارے اور بھاری جرمانے عائد کئے۔


بحرالکاہل میں سمندری درجہ حرارت معمول کی سطح سے اوپر بڑھ جاتا ہے توآب وہوا کے دباوٗ کو ایل نینو کہاجاتا ہے جب درجہٗ حرارت بڑھا تو جنوبی افریقہ کو شدید قحط کا سامنا کرنا پڑا۔پانی کے جتنے بھی ذخائر تھے وہ پانی کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکے۔اسی طرح کیپ ٹاوؐن کو پانی کے اس بحران سے گزرنا پڑا۔ ایک طرف آبادی میں اضافے سے پانی کی ضرورت بڑھی اور دوسری طرف موسمیاتی تبیدیلی کی وجہ سے بھی یہ بحران پیدا ہوا اور اس پہ ستم یہ کہ حکومتی ادارے بھی اپنی ذمہ داری نہ نبھا سکے۔


کیپ ٹاوؐن جنوبی افریقہ کے جنوبی ساحل پر واقع ایک بندر گاہی شہر ہے ۔یہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے یہ وہ جگہ ہے جاں نیلسن منڈیلا کو ایک بار جیل میں رکھا گیا تھا۔ ہر سال بیس لاکھ سیاح کیپ ٹاوؐن جاتے ہیں۔کیپ ٹاوؐن کی معیشت میں سیاحت کا اچھا خاصا اثر پڑتا ہے ۔یہ آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔تقریبا 330 ڈالر سالانہ آمدنی صرف سیاحت کے اس شعبے سے ہوتی ہے۔ پانچ ستارہ ہوٹلز ،خوبصورت ساحل ،عمدہ بندرگاہیں ،کیبل کار،جزیرے،ریسٹورینٹ،سائیکل ریس،کرکٹ اور رگبی یہاں کے یہاں آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب آپ کے پاس پانی کے ذخائر ہوں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے ان سب چیزوں پر بھی گہرا اثرا پڑا۔ پانی کی کمی کی وجہ سے سیاحت بھی متاثر ہوئی اور معیشت سست روی کا شکار ہوکررہ گئی ۔اور ایک ایسا علاقہ جس نے ترقی کی منزلیں طے کرنے میں ایک عمر لگائی تھی اور وہ دنیا کا خبوصورت ترین علاقہ تھا صرف پانی کے نہ ہونے کی وجہ سے سب کچھ ختم ہوگیا۔برسوں کی ترقی پانی کے نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوگئی۔

ہوسکتا ہے کسی کو کیپ ٹاوؐن کے بحران سے لاتعلقی محسوس ہو لیکن یہ دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔برازیل میں ساوؐ پالو پانی کی شدید قلت کی طرف بڑھ رہا ہے اور اسی طرح ہندوستان کا شہر بنگلور بھی۔بیجنگ ، قاہرہ اور ماسکو کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ ہم سب چنئی میں ہونے والے پانی کے بحران سے واقف ہیں۔ آج بھی رہائشی علاقے کا انحصار پانی کے ٹینکوں پر ہی ہے۔آزادی کے وقت فی کس پانی کی دستیابی پانچ ہزار مکعب میٹر تھی جو 2018 میں گر کر 1520 رہ گئی ہے۔ہم جنگلات کاٹ رہے ہیں اور ترقی کے نام پر جھیلوں پر تجاوزات کررہے ہیں۔مون سون کا وقت پر نہ آنا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔اور اگر وقت پر پانی برس بھی جائے تو ہمارے پاس بارش کے پانی کو جمع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔اس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح میں کمی آئی ہے۔تلنگانہ حکوت کے ذریعے شروع کیا گیا مشن کتیہ اور مشن بھاگیرتھ ایسے سنگین حالات میں امید کی کرن ہیں۔


اگر چہ پانی زمین کے 80 فی صد علاقے میں پانی ہے لیکن اس میں صرف تین فی صد پانی ہی میٹھا ہے۔دنیا کی آبادی 800 کروڑ ہے اور اس میں سے لگ بھگ ایک کروڑ لوگ بغیر پانی کے اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے 270 کروڑ لوگوں کو زندگی گزارنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔دنیا بھر مین 500 شہر جن میں کچھ شہر ہندوستان کے بھی ہیں پانی کے بحران کے دہانے پر کھڑئے ہیں۔ ہر سال بارش کم ہورہی ہے اس سے زرعی پیداوار میں کمی ہورہی ہے۔نالیاں گندے نالوں میں بدل رہی ہیں۔ اگر کسی دریا پر تجاوزات کئے جاتے ہیں تو آس پا س کی جھیلیں مرجائیں گی۔اس وقت آب و ہوا کی تبدیلی کے تناظر میں ، پانی کے تحفظ اور انتظام کی انتہائی اہم ضرورت ہے جس پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔ ہر شہری کو ابھرنے والے پانی کے اس بحران سے بچنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.