قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارے کے تحفظ اور اس میں اقلیتوں کی صحیح نمائندگی کے لیے جمعت العلماء ہند نے سپریم کورٹ میں آئین ہند کے آرٹیکل 32 کے تحت جمعت العلماء مہاراشٹر کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کے توسط سے ایڈوکیٹ (آن ریکارڈ) وجیہہ شفیق کے ذریعہ سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی۔ جس پر سپریم کورٹ نے مرکز کو نوٹس جاری کردیا ہے۔
جمیعت العلماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ کمیشن کے غیر جانبدارانہ کردار کو قانونی تحفظ فراہم کیا جانا ضروری ہے۔
جمعیت کی جانب سے جاری کردہ ریلیز کے مطابق 'سپریم کورٹ کی جسٹس ناگیشور راؤ، جسٹس نوین سنہا اور جسٹس اندو ملہوترا کی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی اور معزز عدالت نے پٹیشن کو سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے اس پر جواب طلب کیا ہے۔
واضح رہے کہ سال 2004 میں نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن ایکٹ بنا یا گیا تھا جس کی دفعہ 3 کے تحت نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن کا قیام عمل میں آیا ہے۔
اس کمیشن میں ایک چیئر پرسن اور تین ممبر ہوتے ہیں۔ کمیشن کا چیئر پرسن ریٹائرڈ جسٹس (ہائی کورٹ) ہوتا ہے جبکہ ممبران کے لیے اعلی تعلیم یافتہ اور اپنے سماج میں بااثر و معزز ہونا چاہیے۔ کمیشن کو سِوِل کورٹ کے اختیارات دیئے گئے ہیں اور کمیشن کی جانب سے کئے گئے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی جاسکتی ہے۔
جمعت العلماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ 'کمیشن کا قیام اقلیتی تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ میں قانون بنا کر کیا گیا تھا۔ یہ کوئی حکومتی ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ بھارت کے عدالتی نظام کا ایک حصہ ہے۔
ٹرمپ کے مسلح حامیوں کی ہنگامہ آرائی، واشنگٹن ڈی سی میں 15 دنوں تک کرفیو نافذ
اس کمیشن کے ممبران اور چیئرمین کی تقرری پہلے بھی حکومت کے ذریعہ ہوتی تھی لیکن اب اس میں شفافیت نہیں برتی جارہی ہے بلکہ ایک طرح سے امتیازی رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر جمعت العلماء ہند نے اپنی پٹیشن میں مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کے سربراہ اور ممبران کی تقرری کے لیے سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دے تاکہ کمیشن میں شفافیت کو برقرار رکھا جا سکے۔
پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ پٹیشن داخل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کمیشن کے دو ممبران کی میعاد دسمبر 2020 کے پہلے ہفتہ میں ختم ہوگئی ہے جن کی میعاد میں مزید پانچ سال کی توسیع یا انہیں دوبارہ منتخب کئے جانے کی حکومت ہند کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے۔ جن دو ممبران کو دوبارہ منتخب کئے جانے کی کوشش کی جارہی ان میں ڈاکٹر بلجیت سنگھ مان اور ڈاکٹر ناہید عابدی ہیں جبکہ تیسرے ممبر ڈاکٹر جسپال سنگھ کی میعاد 2023 میں ختم ہوگی۔ کمیشن کے موجودہ چیئرمین جسٹس نریندر کمار جین کی میعاد بھی 2023 میں ختم ہوگی۔
جمیعت العلماء نے اپنی پیٹیشن مین مزید کہا کہ 'چیئر پرسن اور ممبران کا انتخاب من مانے طریقے سے کیا گیا ہے۔ کمیشن کے قانون کے مطابق ان کا انتخاب عمل میں نہیں آیا تھا۔ تین ممبران میں سے دو سکھ ہیں جبکہ دیگر اقلیتوں اور خاص طور پر مسلم کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں اس لیے کمیشن میں ان کی نمائندگی سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔
پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیشن کے قانون کے مطابق کمیشن کے ممبران کو قانون کی معلومات ہونا ضروری ہے جبکہ موجودہ تینوں ممبران میں سے کسی بھی ممبر کا تعلق قانون کے شعبہ سے نہیں ہے جبکہ حکومت نے انہیں دوسرے قابل لوگوں پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی مرضی سے منتخب کرلیا ہے جس کے خلاف پٹیشن داخل کی جارہی ہے تاکہ اگلی میعاد کے لیے ممبران کا تقرر ان کی قابلیت اور کمیشن کی ضرورت کے مطابق ہو تاکہ کمیشن کے ذریعہ اقلیتوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوسکیں۔
جموں و کشمیر میں نئی صنعتی پالیسی کا اعلان
جمعیت العلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نےکہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ حالیہ کچھ برسوں کے دوران متعدد خود مختار حکومتی اداروں کو بے وقعت اور ناکارہ بنانے کی کوششیں ہوئی ہیں ان میں قلیتی تعلیمی اداروں سے متعلق قومی کمیشن بھی شامل ہے، جس کی تشکیل 2004 میں باقاعدہ طور پر ایک ایکٹ کے ذریعہ ہوئی تھی اس طرح کے ایک خود مختار قومی کمیشن کے قیام کا مقصد اقلیتی تعلیمی اداروں کو چلانے میں آنے والی قانونی رکاوٹوں اور دوسری طرح کی دشواریوں کو دور کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اپنے قیام کے ابتدائی کئی برسوں کے دوران اس کمیشن کی کارکردگی بہت شاندار رہی کئی اہم اقلیتی تعلیمی اداروں کے تعلق سے کمیشن نے غیر معمولی نوعیت کے فیصلے بھی کئے جن میں جامعہ کے اقلیتی کردار کی بحالی کا اہم فیصلہ بھی تھا۔
مولانا رشد مدنی نے دعویٰ کیا کہ اب یہ کمیشن بھی دوسرے حکومتی اداروں کی طرح نہ صرف ایک دکھاوے کا ادارہ بن کررہ گیا ہے بلکہ اس کے ممبران کے تقرری میں بھی بڑی حد تک جانبداری برتی جارہی ہے اور اصول و ضوابط کا بھی لحاظ نہیں رکھا جارہا ہے۔
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ یہ کمیشن اقلیتی تعلیمی اداروں سے متعلق ہے اور چونکہ مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہے اور دوسری اقلیتوں کی آبادی کا تناسب مسلم آبادی کے مقابلہ بہت کم ہے اس لیے اصولی طور پر اس کمیشن کے قیام کے بعد سے کسی ریٹائرڈ مسلم جج کو ہی کمیشن کا سربراہ بنایا جاتا رہا لیکن مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد انتخاب کا یہ اصولی پیمانہ یکسر تبدیل کر دیا گیا اور دعویٰ کیا کہ ممبران کی تقرری میں بھی جانبداری سے کام لیا جانے لگا۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن کے سربراہ اور ممبران کا انتخاب پہلے بھی مرکزی حکومت کے ذریعہ ہوتا تھا لیکن اب واقعہ یہ ہے کہ حکومت اپنی پسند کے لوگوں کی تقرری یا ان کی مدت کار میں توسیع کررہی ہے ایسے میں یہ امید کس طرح کی جاسکتی ہے کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کے تعلق سے کسی معاملہ میں کارروائی کرتے اور فیصلہ سناتے وقت کمیشن غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے گا۔