عدالت نے تین ماہ اسے نافذ کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اجے رستوگي کی بنچ نے مرکزی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمی نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک نہیں لگائی تھی، پھر بھی مرکز نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو نافذ نہیں کیا۔
عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ پر کارروائی نہ کرنے کی کوئی وجہ یا جواز نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے نو سال بعد مرکز 10 دفعات کے لئے نئی پالیسی لے کر آیا۔
شاخوں میں تعینات ہیں۔
خیال رہے دہلی ہائی کورٹ نے 12 مارچ 2010 کو شارٹ سروس کمیشن کے تحت آنے والی خواتین کو کام میں 14 سال پورے کرنے پر مردوں کی طرح مستقل کمیشن دینے کا حکم دیا تھا لیکن ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف وزارت دفاع سپریم کورٹ پہنچ گیا۔
ہائی کورٹ کے فیصلہ کے نو سال بعد حکومت نے فروری 2019 میں 10 محکموں میں خاتون افسران کو مستقل کمیشن دینے کی پالیسی بنائی۔ لیکن یہ کہہ دیا کہ اس کا فائدہ مارچ 2019 کے بعد سے سروس میں آنے والی خاتون حکام کو ہی ملے گا، اس طرح وہ خواتین مستقل کمیشن حاصل کرنے سے محروم رہ گئیں جنہوں نے اس ایشو پر طویل عرصہ تک قانونی جنگ لڑی۔
آپ کو بتادیں کہ حکومت نے فوج کے 10 محکموں میں خواتین افسروں کو مستقل کمیشن دینے کی پالیسی بنائی تھی، لیکن ان میں کامبیٹ ونگ شامل نہیں ہے، یعنی جنگ کرنے والے ونگ میں انہیں شامل نہیں کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
جن محکموں میں کمیشن کو ادائیگی کرنے کا فیصلہ کیا گیا وہ یہ ہیں آرمی سروس کور، آرمی ایوی ایشن، آرمی ایجوکیشن کور، انجینئرز ، الیکٹرانکس، مکینیکل انجینئرنگ، آرمی آرڈیننس، انٹیلی جنس، آرمی سروس کور، آرمی ایئر ڈیفنس اور جج ایڈووکیٹ جنرل۔