ETV Bharat / bharat

روس اورطالبان کی جانب سے نیویارک ٹائمز کا دعویٰ مسترد

واشنگٹن میں روسی سفارتخانے نے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے۔

russia and taliban reject the new york times claim
روس اورطالبان کی جانب سے نیویارک ٹائمز کا دعویٰ مسترد
author img

By

Published : Jun 28, 2020, 1:22 PM IST

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کو روس اور طالبان نے مسترد کردیا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ روسی فوجی انٹیلی جنس یونٹ نے طالبان عسکریت پسندوں کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے رقم کی پیشکش کی۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ امریکی انٹیلی جنس حکام کئی ماہ بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ روسی ملٹری انٹیلی جنس نے گزشتہ برس کامیاب حملوں کے بعد طالبان کو انعامات کی پیشکش کی تھی۔

russia and taliban reject the new york times claim
روس اورطالبان کی جانب سے نیویارک ٹائمز کا دعویٰ مسترد

رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کے عہدیداروں نے کہا کہ طالبان سے وابستہ عسکریت پسندوں یا ان کے ساتھ قریبی وابستہ عناصر نے روسیوں سے کچھ انعام کی رقم وصول کی۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ کن حملوں کے بدلے انہیں کتنی رقم دی گئی۔

تاہم وائٹ ہاؤس، سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) اور ڈائرکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر نے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ سے متعلق عالمی خبررساں ایجنسی کو جواب دینے سے انکار کردیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں روسی سفارتخانے نے رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا۔

انہوں نے ٹوٹٹ میں مزید کہا کہ 'ان دعوؤں سے واشنگٹن اور لندن میں روسی سفارتخانوں کے ملازمین کی زندگی کو براہ راست خطرہ لاحق ہے'۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'طالبان کے کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ اس طرح کے تعلقات نہیں ہیں اور امریکی اخبار کی رپورٹ طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'روسی خفیہ ایجنسی کے ساتھ اس قسم کے معاہدے بے بنیاد ہیں۔ ہمارے حملہ اس سے پہلے برسوں سے جاری تھے اور ہم نے اپنے وسائل سے یہ کام کیا'۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ 'یہ امریکیوں کے ساتھ ہمارے معاہدے کے بعد تبدیل ہوا اور ان کی زندگی محفوظ ہے اور اب ہم ان پر حملے نہیں کر رہے ہیں'۔

واضح رہے کہ تقریباً 20 برس تک طالبان سے جنگ کے بعد امریکہ، افغانستان سے انخلا، امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کے مختلف حصوں پر قابض عسکریت پسند گروہ کے درمیان امن کے حصول کی کوششوں کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔

بتادیں کہ رواں برس 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا۔ جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس پر امریکی عہدیداران اور ناٹو نے مئی کے اواخر میں کہا تھا کہ اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب طالبان سے اتفاق کردہ شیڈول سے قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد تقریبا 8600 ہے'۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کو روس اور طالبان نے مسترد کردیا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ روسی فوجی انٹیلی جنس یونٹ نے طالبان عسکریت پسندوں کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے رقم کی پیشکش کی۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ امریکی انٹیلی جنس حکام کئی ماہ بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ روسی ملٹری انٹیلی جنس نے گزشتہ برس کامیاب حملوں کے بعد طالبان کو انعامات کی پیشکش کی تھی۔

russia and taliban reject the new york times claim
روس اورطالبان کی جانب سے نیویارک ٹائمز کا دعویٰ مسترد

رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کے عہدیداروں نے کہا کہ طالبان سے وابستہ عسکریت پسندوں یا ان کے ساتھ قریبی وابستہ عناصر نے روسیوں سے کچھ انعام کی رقم وصول کی۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ کن حملوں کے بدلے انہیں کتنی رقم دی گئی۔

تاہم وائٹ ہاؤس، سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) اور ڈائرکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر نے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ سے متعلق عالمی خبررساں ایجنسی کو جواب دینے سے انکار کردیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں روسی سفارتخانے نے رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا۔

انہوں نے ٹوٹٹ میں مزید کہا کہ 'ان دعوؤں سے واشنگٹن اور لندن میں روسی سفارتخانوں کے ملازمین کی زندگی کو براہ راست خطرہ لاحق ہے'۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'طالبان کے کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ اس طرح کے تعلقات نہیں ہیں اور امریکی اخبار کی رپورٹ طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'روسی خفیہ ایجنسی کے ساتھ اس قسم کے معاہدے بے بنیاد ہیں۔ ہمارے حملہ اس سے پہلے برسوں سے جاری تھے اور ہم نے اپنے وسائل سے یہ کام کیا'۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ 'یہ امریکیوں کے ساتھ ہمارے معاہدے کے بعد تبدیل ہوا اور ان کی زندگی محفوظ ہے اور اب ہم ان پر حملے نہیں کر رہے ہیں'۔

واضح رہے کہ تقریباً 20 برس تک طالبان سے جنگ کے بعد امریکہ، افغانستان سے انخلا، امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کے مختلف حصوں پر قابض عسکریت پسند گروہ کے درمیان امن کے حصول کی کوششوں کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔

بتادیں کہ رواں برس 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا۔ جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس پر امریکی عہدیداران اور ناٹو نے مئی کے اواخر میں کہا تھا کہ اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب طالبان سے اتفاق کردہ شیڈول سے قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد تقریبا 8600 ہے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.