سنہ 2019 متعد وزرائے اعلیٰ کے لیے موت کا پیغام لے کر آیا۔ منوہر پاریکر، شیلا دکشت، سشما سوراج، جگناتھ مشرا، اور اب بابو لال گور اس بے ثباتی دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
یقیناً جس کی مدت حیات مکمل ہو گئی ہو اسے جانا ہی ہوتا ہے، لیکن اس دنیا کو چھوڑنے پر اقرباء اور عزیز دوستوں پر ایک غم کی جو کیفیت طاری ہوتی ہے وہ کوئی دوسرا شخص محسوس نہیں کر سکتا۔
بابو لال گور کے انتقال کے بعد حکمراں جماعت اور حزب مخالف پارٹیوں کے رہنما ان کے آخری دیدار کے لیے ان کے گھر پہنچ رہے ہیں اور اہل خانہ کے ساتھ ملاقات کر ان کے غم میں شریک ہو رہے ہیں۔
ان کے کئی سیاسی دوستوں نے اپنے اور بابولال گور کے آپسی رشتے کو میڈیا کے ساتھ شیئر کیے۔ کانگریس پارٹی کے نائب صدر رامیشور نیکھرا نےبتایا کہ 'ہمیشہ دوست کی حیثیت سے ہی بات کرتے تھے، دوستی کے بیچ کبھی سیاست نہیں آنے دی'۔
بی جے پی کے ریاستی میڈیا انچارج لوکیندر پراشار نے بتایا کہ 'وہ سماجی تنظیموں کی مالی امداد کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے'۔
بی جے پی ریاستی نائب صدر رامیشور شرما نے بتایا کہ ' انھوں نے بابو لال گور کے ساتھ ایک دستخط تحریک چلائی تھی'۔
بھوپال کے سابق رکن پارلیمنٹ آلوک سنجر نےکہا کہ 'بھوپال سے ان کو بہت لگاؤ تھا، یہاں تک کہ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مدھیہ پردیش کے نہیں بھوپال کے وزیراعلیٰ ہیں، وہ بھوپال کی ترقی کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرتے تھے'۔
سابق لوک سبھا اسپیکر اور سابق رکن پارلیمنٹ اندور سمترا مہاجن نے ان کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ بہت زندہ دل انسان تھے، کام کو لے کر وہ ہمیشہ سنجیدہ رہتے تھے خواہ انھیں پارٹی میں کوئی بھی عہدہ ملا ہو۔ ذاتی زندگی کے معاملے میں وہ بہت ہنسمکھ تھے، ان کا ہمیشہ ہنسنا مجھے آج بھی یاد ہے۔ چالیس سال ایک ہی اسمبلی حلقے سے جیت کر آنا ان کے لیے بڑی کامیابی تھی، اندور سے بھی انھیں لگاؤ تھا'۔
سابق مرکزی وزیر اور سابق رکن پارلیمنٹ سکندرآباد بنڈارو دتہ تریہ نے کہا کہ 'مجھے جب ان کے انتقال کی خبر ہوئی مجھے بےحد افسوس ہوا، وہ بلکل میرے گھروالوں کی طرح تھے، اس غم کے وقت میں، میں ان کے اہل خانہ سے صبر کرنے کی درخواست کرتا ہوں'۔