چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی نے عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا: 'اگر کوئی کمپنی راہل گاندھی کو برطانوی شہری قرار دیتی ہے تو اس سے وہ برطانوی شہری نہیں ہو جائیں گے'۔
قوم پرست ہندو تنظیم 'ہندو مہا سبھا' نے راہل گاندھی کو انتخابات کے لیے نااہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔
یونائیٹیڈ ہندو فرنٹ کے جے بھگوان گوئل اور ہندو مہا سبھا کے چندر پرکاش کوشک نے سپریم کورٹ میں عرضی میں داخل کرکے راہل گاندھی کو الیکشن لڑنے پر روک لگانے کی مانگ کی تھی۔
عرضی میں کہا گیا تھا کہ راہل گاندھی نے برطانیہ کی شہریت لے رکھی ہے، اس لیے وزرات داخلہ جلد از جلد اس پر کارروائی کرے اور ان کا نام ووٹر لسٹ سے خارج کر دیا جائے۔
اس سے قبل مرکزی وزارت داخلہ نے راہل گاندھی کی شہریت کے معاملے پر ان کو نوٹس جاری کرکے دو ہفتے کے اندر حقائق کے ساتھ وضاحت کا مطالبہ کیا تھا۔
وزرات داخلہ نے نوٹس میں کہا ہے کہ انہیں بی جے پی رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی کی طرف سے عرضی ملی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ راہل گاندھی 2003 میں برطانونی کی رجسٹرڈ کمپنی بیک آپس لمیٹڈ کے ڈائریکٹرز میں شامل تھے۔
وزارت کے مطابق، سوامی کا کہنا ہے کہ برطانوی کمپنی کے 10 اکتوبر، 2005 اور 31 اکتوبر، 2006 کو بھرے گئے سالانہ ٹیکس رٹرن میں راہل گاندھی کی تاریخ پیدائش 19 جون، 1970 بتائی گئی ہےاور اس میں گاندھی کو برطانوی شہری بتایا گیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ 17 فروری، 2009 کو اس کمپنی کی رپورٹ میں آپ کی شہریت برطانوی بتائی گئی ہے لہذا آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ اس بارے میں آپ ایک ہفتے کے اندر حقائق کے ساتھ اپنا رخ وزارت کے سامنے واضح کریں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹس کے بعد کانگریس نے مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا تھا۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری اور راہل کی ہمشیرہ پرینکا گاندھی نے کہا تھا کہیہ کیا بکواس ہے؟ پورے بھارت کو معلوم ہے کہ راہل گاندھی بھارتی شہری ہیں، یہاں کی عوام نے ان کو اس ملک میں پیدا ہوتے، ان کی پرورش ہوتے اور بڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔