ڈاکٹر جے شنكر نےبدھ کے روز واشنگٹن میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ جموں و کشمیر کے کچھ لوگ اور سرحد پار کے ’ذاتی مفادات‘ کی وجہ سے مودی حکومت کی نئی پہل کے خلاف سخت ردعمل ہوا ہے۔
انہوں نے کہا’’جو ردعمل ہوا ہے، وہ 70 سال سے زیادہ خود غرضی کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ مقامی اور سرحد پار کے مفادات ہیں، لیکن ہم جموں و کشمیر کے ترقی کا انتظامات کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان نے گزشتہ 70 برسوں سے اسے برباد کرنے کےمنصوبے بنایے ہیں‘‘۔
جےشنكر نے امریکی تھنک ٹینک ’سینٹر فار اسٹریٹجك اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ میں اپنی تقریر کے بعد ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح بات ہے کہ جب کوئی کسی چیز میں ضروری تبدیلی کرتا ہے تب ’ ٹرانشنل رسک ‘ برقرار رہتا ہے اور ردعمل بھی سامنے آتے ہیں۔
انہوں نے کہا’’یہ فیصلہ (مودی حکومت کا کشمیر پر فیصلہ) ایسے ہی نہیں لے لیا گیا تھا۔ یہ اس وجہ سے لیا گیا تھا کیونکہ کوئی اور راستہ نہیں تھا‘‘۔
انہوں نے جموں و کشمیر کے حالات اور وہاں موبائل کے استعمال پر پابندی کے سلسلہ میں وضاحت کی کہ ایسا اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ تعصب کو فروغ دینے کے لئے اور بھارت مخالف قوتوں کو متحرک کرنے کے لئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا’’زندگی کے نقصان کو روکنے کے اقدامات کئے گئے ہیں اور اس کے لئے تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ کئی سارے قدم احتیاط کے طور پر اٹھائے گئے ہیں۔ اگر آپ 2016 میں ہونے والے واقعات کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا بنیاد پرستی کو بڑھانے اور مخالف طاقتوں کو متحرک کرنے کے لئے کس طرح سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا۔
وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا کے اس نئے منظر نامے میں، بھارت کثیر جہتی گروپوں کے درمیان ایک رہنما کے طور پر ابھرا ہے کیونکہ ایک ہی وقت پر سکیورٹی اور ابھرتے ہوئے حالات کو لے کر اس کا موقف واضح ہے۔
انہوں نے ’بھارتی خارجہ پالیسی- ایک مختلف دور کی تیاری‘ موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ عالمگیرسطح پرتکثریت کی سمت میں آگے بڑھ گیا ہے لہذا عملی نتائج پر مرتکز تعاون پر کشش نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔
اس موقع پر جے شنكر نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات ایک سکیورٹی نیٹ ورک کے طور پر ’اجتماعی سیکورٹی‘ کا نظریہ پیش کرتا ہے. انتہائی مسابقت اور طاقت کے توازن سے کام یہ کثیر المحور دنیا خطرے سے باہر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یوروپ عالمی جنگ کے اپنے تجربات کی وجہ سے خاص طور پر ہوشیار ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کی اہم طاقتیں بھی عام نظریہ اپنا کر نہیں بلکہ صرف خصوصی حل کے طور پر اس طرح کی طاقت کے توازن کی حمایت کرتی ہیں۔