ان کے لیے اس بل کا مطلب بہتر مستقبل کی جانب ایک قدم ہے۔لیکن اب یہ صرف ایک خواب ہے، کیونکہ ان ہندو پناہ گزینوں کو ابھی تک بنیادی سہولیات دستیاب نہیں کرائی گئی ہیں۔
ان لوگوں کی شکایت ہے کہ حکومت نے اندرا آواس یوجنا کے تحت ان کو گھر دینے کا کیا تھا وعدہ لیکن ابھی تک یہ وعدہ وفا نہیں ہو سکا۔
پاکستان سے یاترا کا ویزا لے کر بھارت آنے والے یہ پناہ گزین جودھپور میں رہائش پزیر ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اتنے مسائل کے بعد بھی وہ بھارت میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بڑی عمر کی لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکل پاتیں، لیکن یہاں مجھے بہت اچھا لگتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم لوگ ایک کوٹھی میں قید ہیں لیکن بھارت میں حالات بالکل اس کے بر عکس ہے۔
بھارتی شہریت کی ضرورت پر كیشو دیوی نے کہا کہ مجھے بھارت میں اچھا لگتا ہے، لیکن بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے۔ ہندوؤں کو شہریت ملنا خوشی کی بات ہے، اگر ہم بھارت کے شہری بن گئے تو یہ ہماری زندگی کی سب سے زیادہ خوشی کی بات ہوگی۔
ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھنے والے لال چند نے کہا:'پاکستان میں اسکول میں ہمارے لیے پینے کے پانی کا گلاس بھی الگ ہوتے تھا اور پاکستانی کہتے تھے کہ تم ہندو ہو اور اتنا ہی نہیں وہ لوگ ہمیں کلمہ بھی پڑھنے پر مجبور کرتے تھے'۔
ان پناہ گزین بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے لئے بہت سے این جی او کام کر رہے ہیں۔
شہریت ترمیم بل کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے 31 دسمبر سنہ 2014 سے پہلے بھارت آئے ہندوؤں کو بھارتی شہریت دی جائے گی، یہ بل لوک سبھا میں پاس ہو چکا ہے۔