ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران شاعر، مصنف و سینئیر صحافی رئیس انصاری نے بتایا کہ راحت اندوری میرے دوست تھے۔ ہمارے ان کے ساتھ خاندانی تعلقات تھے۔ ان کی والدہ میری بیگم کو اپنی بیٹی مانتی تھیں۔ راحت کئی بار میرے گھر تشریف لائے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ راحت کے جانے کے بعد اردو زبان کو بڑا نقصان ہوا۔ وہ ملک کے بڑے شاعر تھے، جن کی عوام میں بڑی مقبولیت تھی۔ راحت اندوری کی خصوصیت یہ تھی وہ عوام سے جڑ کر یا عوام کو جوڑ کر شعر و شاعری کرتے تھے۔
رئیس انصاری نے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ راحت اندوری سے میری پہلی ملاقات 1972 میں ہوئی تھی، جب لکھیم پور کھیری اور لکھنؤ کے مشاعرے میں انہیں بلایا تھا۔اس کے بعد ہماری دوستی بڑھتی گئی اور ہم نے بہت سارے مشاعروں میں اسٹیج شئیر کیا۔
راحت اندوری کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی دور میں راحت اندوری 'راحت قیصری' کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ 'ڈاکٹر راحت قیصری' کے نام سے شائع ہوا تھا۔ راحت اندوری اپنے استاد قیصری سے بڑی نسبت رکھتے تھے، اسی کے چلتے وہ اپنے نام میں قیصری لکھتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے صرف 'راحت اندوری' نام سے دنیا میں شہرت حاصل کی۔
انہوں نے بتایا کہ راحت اندوری خالص شاعر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نوکری کی پابندی توڑنے کے لئے لیے نوکری سے کنارہ کشی اختیار کی۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے 'آرٹسٹ' بھی تھے۔ راحت مشاعروں کی جان ہوتے تھے، لوگ انہیں دیکھنے اور سننے کے لیے ہی جاتے تھے۔
راحت اندوری ہونے کے معنی شاعری میں صاف گوئی، حکومت کی غلط پالیسی پر تنقید اور سماج میں نفرت پھیلانے والوں کے لئے ان کے اشعار دلوں میں نشتر کی طرح چبھتے تھے۔شائد یہی وجہ ہے کہ اس کی موت کے بعد سوشل میڈیا میں قابل اعتراض پوسٹ خوب وائرل کی گئیں۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ راحت اندوری سماج کو جوڑنے والوں اور آپس میں پیار محبت کا پیغام پھیلانے والوں کے لئے 'راحت' تھے جبکہ نفرت کے سوداگروں کے لیے سچائی کا آئینہ دکھانے والے شاعر تھے۔ ان کا دنیا فانی سے رخصت ہونا پورے ایک صدی کو سنسان کر جانا ہے۔