واضح رہے کہ 12 فروری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت کے دورے سے قبل چار اعلی امریکی سینیٹرز نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپو کو کشمیر سے متعلق خط لکھا ہے۔ امریکی سینیٹرز کی جانب سے لکھے گئے خط میں دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی کے بعد کشمیر میں انٹرنیٹ پر مسلسل پابندی اور سیاسی رہنماؤں کی حراست پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے
ان چار امریکی سنیٹرز میں کرس ون ہولن، ٹوڈ ینگ ڈک ڈربن اور لنڈسے گراہم شامل تھے۔
کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے لنڈسے گراہم نے جے شنکر کو کہا کہ انہیں بھارت اور پاکستان کے حوالے سے دو جمہوریتوں کی امید ہے۔
لنڈسے گراہم نے کہا کہ بھارت میں آپ آگے بڑھ رہے ہیں، آپ نے جمہوری راستہ چن لیا ہے۔ جب بات کشمیر کی ہو تو میں نہیں جانتا کہ یہ کس طرح حل ہوگا لیکن یہ یقینی بنائیں کہ دو جمہوریتیں اس کو الگ الگ طریقے سے حل کرے گی۔ اگر آپ یہاں یہ تصور ثابت کرسکتے ہیں تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ یہی شاید جمہوریت فروخت کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
اس پر جے یشونکر نے جواب دیا کہ ' سینیٹر، فکر نہ کرو۔ ایک جمہوریت اس کو حل کرے گی اور آپ کو معلوم ہے کہ وہ کونسی جمہوریت ہے۔'
دونوں رہنما جرمنی میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں بات چیت کر رہے تھے۔