ETV Bharat / bharat

غربت کا خاتمہ کیسے ممکن؟

ہر برس 17 اکتوبر کو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس روز غرباء کی حالت زار اور ان کی جدوجہد بھری زندگی کو اجاگر کرنے لیے لوگوں کو بیدار کیا جاتا ہے جس کا مقصد ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غربت کا خاتمہ کیا جا سکے۔

غربت کے خاتمے کا عالمی دن
author img

By

Published : Oct 18, 2019, 12:01 AM IST

غربت انسانی زندگی کو خاموشی سے کھوکھلا کرتے چلی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد افراد غربت کا شکار ہیں لیکن آج کے دور کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے لیے نافذ کی گئی متعدد ترقیاتی اسکیمز ہی ترقی اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے اصل خطرہ ثابت ہورہی ہیں۔

نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی اور ان کی اہلیہ ایستھر ڈفلو
نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی اور ان کی اہلیہ ایستھر ڈفلو
غربت کے خاتمے کا عالمی دن
غربت کے خاتمے کا عالمی دن

رواں برس معاشیات کے زمرے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ابھیجیت بنرجی، ان کی اہلیہ ایستھر ڈفلو اور مائیکل کریمر نے غربت کے خلاف لڑنے کے بہترین طریقوں کو جاننے کے لیے تجربات کیے تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے والے بھارتی نژاد امریکی پروفیسر ابھیجیت اور ان کی اہلیہ ڈفلو کی اس کامیابی پر تمام بھارتیوں نے خوشی کا اظہار کیا۔

سنہ 2015 میں اینگوس ڈیٹون کو بھی غربت پر تجربات کرنے پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ابھیجیت، ڈفلو اور کریمر کے دو صدی تک کیے گئے تجربات سے اس بات کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ غربت کی اصل وجہ جانے بغیر غربت کے خاتمے کے نام پر پیش کردہ اسکیمز کے تحت لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جس پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کے تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ غربت کے خلاف لڑنا ممکن ہے اور اس کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اس بات کا تجزیہ کر لے کہ کون سے طبقے کو کون سی سہولیات اور ترقیاتی اسکیم کی ضرورت ہے، ان ضرورتوں کی بنیاد پر حکومت بہتر حل تلاش کر سکتی ہے تب ہی ہم غربت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔

سنہ 2003 میں ابھیجیت بنرجی نے عبداللطیف جمیل پورٹی ایکشن لیب کی بنیاد رکھی اور جب انہوں نے غربت کی بنیادی وجوہات جیسے تعلیم کا کم معیار اور اسکول میں بچوں کی صحت سے متعلق موضوع پر تحقیق کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ہم صحیح اور موثر حل سے یقینی طور پر اس مسئلے سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ نوبل کمیٹی نے ستائش کی ہے کہ ان تینوں ماہرین معاشیات کے تجرباتی طریقہ کار واقعی معیشت کی حقیقی ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔

غربت کا خاتمہ کبھی بھی یا کسی بھی شکل میں ہو، اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کی فہرست میں یہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق انسانی زندگی کی 10 فیصد یا 70 کروڑ آبادی غربت کی زندگی بسر کررہی ہے یہاں تک انہیں مناسب تعلیم، صحت، صاف پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے جس سے واضح طور پر کہا جاسکتا ہے سنہ 2030 تک غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔

وہیں 55 فیصد سے زائد آبادی سوشل سکیورٹی سے محروم ہیں۔ ابھیجیت کے تجربات سے ثابت ہوا کہ ایک بار میں خطیر رقم خرچ کر دینے سے غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ محدود وسائل کے استعمال سے ہی زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے جو آبادی کی معاشی سماجی حیثیت کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

ابھیجیت نے کہا کہ 'غربت کے بارے میں پالیسی سازوں کی کم سمجھ داری ہی ترقیاتی اسکمیز کے ناکام ہونے کی اصل وجہ ہے۔'

انہوں نے اپنی کتاب ' اے ریوولیوشنری ریتھنک اون دا گلوبل پورٹی اسٹرگل ٹراجیکٹری' میں بتایا ہے کہ 'کوئی بھی غربت کو کم کرنے سے متعلق اسکیم مناسب تحقیق اور صحیح اعدا و شمار پر ہی مبنی ہونی چاہیے۔'

انہوں نے بتایا کہ 'نظراندازی اور لاعلمی ہی ترقی کی رفتار کو سست کردیتی ہے۔ ان کے مطابق سماجی صحت کے اقدام سے ہی بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جیسے حاملہ خاتون کو مناسب غذا فراہم کروانا جو آیوڈین کی کمی کو روکتا ہو اور بچوں کو اینٹی پیراسائٹک دوائیں فراہم کروانا جو پرجیوی کیڑے سے ان کی حفاظت کرتا ہو۔

ابھیجیت کے تجربات اسکول کے تعلیمی معیار کو بڑھانے میں مدد کر رہے ہیں اور 50 لاکھ سے زائد بچوں کو اس کا سیدھا فائدہ ملتا ہے۔

آج ابھیجیت، ڈفلو اور کریمر نے اپنے ریسرچ میں ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے لیکن ان ریسرچ میں غربت، ناخواندگی جیسی سماجی بیماری کے لیے مناسب علاج کے بارے میں ذکر نہیں کیا گیا۔ ان کے تجربات کا نچوڑ یہ ہے غربت کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے صبر اور ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔ سیاستداں غریبوں کو ووٹ بینک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حکومت دستیاب خزانے کا احاطے کیے بغیر صرف ڈائریکٹ منی ٹرانسفر اسکیم کا نفاذ سابقہ حکومت سے مقابلہ کے لیے کر رہی ہیں۔ تمام حکومتوں کو اپنی ترقیاتی اسکیمز پر عمل درآمد کرنے سے پہلے ان مشوروں پر غور کرنا چاہیے۔

غربت انسانی زندگی کو خاموشی سے کھوکھلا کرتے چلی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد افراد غربت کا شکار ہیں لیکن آج کے دور کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے لیے نافذ کی گئی متعدد ترقیاتی اسکیمز ہی ترقی اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے اصل خطرہ ثابت ہورہی ہیں۔

نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی اور ان کی اہلیہ ایستھر ڈفلو
نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی اور ان کی اہلیہ ایستھر ڈفلو
غربت کے خاتمے کا عالمی دن
غربت کے خاتمے کا عالمی دن

رواں برس معاشیات کے زمرے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ابھیجیت بنرجی، ان کی اہلیہ ایستھر ڈفلو اور مائیکل کریمر نے غربت کے خلاف لڑنے کے بہترین طریقوں کو جاننے کے لیے تجربات کیے تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے والے بھارتی نژاد امریکی پروفیسر ابھیجیت اور ان کی اہلیہ ڈفلو کی اس کامیابی پر تمام بھارتیوں نے خوشی کا اظہار کیا۔

سنہ 2015 میں اینگوس ڈیٹون کو بھی غربت پر تجربات کرنے پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ابھیجیت، ڈفلو اور کریمر کے دو صدی تک کیے گئے تجربات سے اس بات کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ غربت کی اصل وجہ جانے بغیر غربت کے خاتمے کے نام پر پیش کردہ اسکیمز کے تحت لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جس پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کے تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ غربت کے خلاف لڑنا ممکن ہے اور اس کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اس بات کا تجزیہ کر لے کہ کون سے طبقے کو کون سی سہولیات اور ترقیاتی اسکیم کی ضرورت ہے، ان ضرورتوں کی بنیاد پر حکومت بہتر حل تلاش کر سکتی ہے تب ہی ہم غربت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔

سنہ 2003 میں ابھیجیت بنرجی نے عبداللطیف جمیل پورٹی ایکشن لیب کی بنیاد رکھی اور جب انہوں نے غربت کی بنیادی وجوہات جیسے تعلیم کا کم معیار اور اسکول میں بچوں کی صحت سے متعلق موضوع پر تحقیق کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ہم صحیح اور موثر حل سے یقینی طور پر اس مسئلے سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ نوبل کمیٹی نے ستائش کی ہے کہ ان تینوں ماہرین معاشیات کے تجرباتی طریقہ کار واقعی معیشت کی حقیقی ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔

غربت کا خاتمہ کبھی بھی یا کسی بھی شکل میں ہو، اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کی فہرست میں یہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق انسانی زندگی کی 10 فیصد یا 70 کروڑ آبادی غربت کی زندگی بسر کررہی ہے یہاں تک انہیں مناسب تعلیم، صحت، صاف پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے جس سے واضح طور پر کہا جاسکتا ہے سنہ 2030 تک غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔

وہیں 55 فیصد سے زائد آبادی سوشل سکیورٹی سے محروم ہیں۔ ابھیجیت کے تجربات سے ثابت ہوا کہ ایک بار میں خطیر رقم خرچ کر دینے سے غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ محدود وسائل کے استعمال سے ہی زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے جو آبادی کی معاشی سماجی حیثیت کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

ابھیجیت نے کہا کہ 'غربت کے بارے میں پالیسی سازوں کی کم سمجھ داری ہی ترقیاتی اسکمیز کے ناکام ہونے کی اصل وجہ ہے۔'

انہوں نے اپنی کتاب ' اے ریوولیوشنری ریتھنک اون دا گلوبل پورٹی اسٹرگل ٹراجیکٹری' میں بتایا ہے کہ 'کوئی بھی غربت کو کم کرنے سے متعلق اسکیم مناسب تحقیق اور صحیح اعدا و شمار پر ہی مبنی ہونی چاہیے۔'

انہوں نے بتایا کہ 'نظراندازی اور لاعلمی ہی ترقی کی رفتار کو سست کردیتی ہے۔ ان کے مطابق سماجی صحت کے اقدام سے ہی بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جیسے حاملہ خاتون کو مناسب غذا فراہم کروانا جو آیوڈین کی کمی کو روکتا ہو اور بچوں کو اینٹی پیراسائٹک دوائیں فراہم کروانا جو پرجیوی کیڑے سے ان کی حفاظت کرتا ہو۔

ابھیجیت کے تجربات اسکول کے تعلیمی معیار کو بڑھانے میں مدد کر رہے ہیں اور 50 لاکھ سے زائد بچوں کو اس کا سیدھا فائدہ ملتا ہے۔

آج ابھیجیت، ڈفلو اور کریمر نے اپنے ریسرچ میں ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے لیکن ان ریسرچ میں غربت، ناخواندگی جیسی سماجی بیماری کے لیے مناسب علاج کے بارے میں ذکر نہیں کیا گیا۔ ان کے تجربات کا نچوڑ یہ ہے غربت کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے صبر اور ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔ سیاستداں غریبوں کو ووٹ بینک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حکومت دستیاب خزانے کا احاطے کیے بغیر صرف ڈائریکٹ منی ٹرانسفر اسکیم کا نفاذ سابقہ حکومت سے مقابلہ کے لیے کر رہی ہیں۔ تمام حکومتوں کو اپنی ترقیاتی اسکیمز پر عمل درآمد کرنے سے پہلے ان مشوروں پر غور کرنا چاہیے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.