بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے کلبھوشن جادھاو کیس میں اسلام آباد عدالت کے حکم کے بعد یہ دعویٰ مسترد کردیا کہ وہ (پاکستان) نئی دہلی سے بات چیت کیا ہے۔
ایم ای اے کے یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے ہیں جب پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے دعوی کیا کہ پاکستان حکومت نے جادھو کے قانونی نمائندے کی تقرری کے لئے بھارتی حکومت سے دوبارہ رابطہ کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے یہ پوچھے جانے پر کہ اگر اسلام آباد عدالت کے حکم کے بعد پاکستان کی بھارتی نمائندہ سے بات ہوئی ہے تو بھارتی عہدیدار ان سے کیا بات کریں گے؟ سریواستو نے کہا کہ 'ہمیں اس سلسلے میں پاکستان حکومت کی طرف سے کوئی مواصلت نہیں ہوئی ہے'۔
بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی جیل میں بند بھارتی بحریہ کے سابق افسر کلبھوشن جادھو کے لئے وکیل کی تقرری سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران اس مؤقف کو پیش کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ 'پاکستان کو آئی سی جے فیصلے کے موثر جائزے، تکمیل اور ان پر عمل درآمد سے متعلق بنیادی معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے'۔
اطلاع کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ 'بھارتی عہدیداروں کو موقع دیا جانا چاہئے کہ وہ پاکستان میں سزائے موت کے سلسلے میں قید بھارتی شہری کلبھوشن جادھاو کے بارے میں اپنا مؤقف پیش کریں'۔
آئی ایچ سی کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس معین الحسن اورنگ زیب پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ نے جادھو کے وکیل کی تقرری کے حکومتی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی عہدیداروں کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ .
اس کیس کی سماعت تین ستمبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔ بھارت نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ کلبھوشن جادھو کیس میں پاکستان نے موثر حل کے لئے موجود تمام راستوں کو روک دیا ہے۔
پاکستان کا دعوی ہے کہ جادھو کو جاسوسی کے الزام میں سن 2016 میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارت نے پاکستان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ایرانی بندرگاہ چابہار سے اغوا کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 2017 کے شروع میں ایک پاکستانی فوجی عدالت نے جادھو کو سزائے موت سنائی تھی۔
مئی 2017 میں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے ان کی پھانسی پر روک لگائی اور گذشتہ برس جولائی میں اس نے بھارت کے اس دعوے کو برقرار رکھا کہ پاکستان نے متعدد معاملات پر قونصلر تعلقات سے متعلق ویانا کنونشن کی بے حد خلاف ورزی کی ہے۔