موہن داس کرم چند گاندھی فطری طور پر بچپن سے ہی ایک اوسط طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ کم گو شخص بھی تھے۔ انہوں نے اگر خود کو ایک بےباک اور بےخوف شخص کے طور پر تیار کیا ہوتا تو شاید وہ اپنی کم عمری سے ہی بڑے ذہین وفتین ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف چیلنجیز سے نمٹنے کے لیے بھی تیار ہوتے۔
21 برس کی عمر میں جب وہ لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کررہے تھے، تبھی انہوں نے اپنی بھارتی عوام سے متعلق لکھا، جس میں انہوں نے خاص طور پر بھارتی رسومات کو قلمبند کیا اور ان کی تہذیبی و ثقافتی پہلؤوں کو اجاگر کیا اور یہ گاندھی جی کے پہلے ایسے 9 مضامین تھے جو انگلش ویکلی میں شائع ہوئے۔
گاندھی جی نے کبھی دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے کچھ نہیں لکھا، ہمیشہ اپنی تحریر میں انہوں نے مبالغہ آرائی سے گریز کیا، ان کی تحریر کو پڑھ کر یہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ کسی بھی سوچ کو آسان زبان میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، ان کا مقصد سچائی کو اجاگر کرنا، سماج کی خدمت کرنا، اور لوگوں کو حق بات کی تعلیم دینا تھا۔
گاندھی جی جب جنوبی افریقہ پہنچے تو آپ کے ساتھ افریقی عدالت عظمٰی میں توہین آمیز سلوک کیا گیا۔جس کے بابت انہوں نے لکھ کر وہاں کے مقامی اخباروں میں شائع کرایا جس سے راتوں رات یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔ یقینا جنوبی افریقہ میں اس وقت رنگ و نسل کے درمیان تفریق و امتیاز بھی برتا جاتا تھا، لیکن ان سب کے بعد بھی میڈیا کو لکھنے کی آزادی حاصل تھی۔
سنہ 1893میں جب گاندھی جی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تب آپ کی عمر 24 برس تھی، اس وقت آپ نے بھارت اور افریقہ میں شائع ہونے والے اخباروں کے ایڈیٹرز کو خط لکھا۔اس دوران مدراس سے شائع ہونے والے اخبار انڈین ریویو کے ایڈیٹر جی وی نٹیسن سے آپ کی دوستی ہوئی جو کہ طویل عرصے تک قائم رہی۔
جنوبی افریقہ میں رہنے کے کچھ مہینوں بعد سنہ 1893 میں ، گاندھی جی نے سوچا کہ انہیں بھارتی عوام کو حق دلانے کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہو اور اس کے لیے ایک صحافی سے بہتر دوسرا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔کیونکہ ایک صحافی ہی سماج میں پھیلی برائی کو سامنے لا سکتا ہے وہ حق کی پاسداری، عوامی مقاصد کے حصول اور ان کے پیش کش میں اعتراضات کے باوجود ہمت اور حوصلوں کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ یہ ساری چیزیں گاندھی جی کے خطوط میں نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہیں جو انہوں نے حکومت اور اس وقت کے سر فہرست اخبارات کو لکھے تھے۔ایک نوجوان کی حیثیت سے گاندھی جی ان سارے نظام کو سمجھا اور اس کی خامیوں کو اجاگر کیا جس میں قوم کی ایک بڑی اکثریت کے خلاف قوانین نافذ کیے گئے تھے۔
اس کی ایک مثال 25 اکتوبر سنہ 1894 میں 'ٹائمز آف ناٹل' کو لکھے گئے ان کے خط سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، جو 'ریمی سیمی' عنوان سے سخت لفظوں میں تحریر کیا ہوا ایک ادارتی مضمون تھا۔
اس لیے گزرے واقعات کو سمجھنے کے لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گاندھیائی عدم تشدد کی کوششوں نے بالآخر نیلسن منڈیلا جیسے لوگوں کو متاثر کیا۔ گاندھیائی سوچ کو نیلسن منڈیلا نے صحیح پیغام سمجھ کر رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مسترد کیا۔ جنوبی افریقہ نے فرقہ واریت کے بعد کے ادوار میں گاندھی کو اہم نہیں سمجھا، لیکن انہوں نے ان کے پیغام کو پوری طرح جذب کر لیا تھا۔
ہم نے اجیت بھٹاچارجیہ، شری مولگونکر، بی جی ورشیسی اور وی کے نرسمہن جیسے ایڈیٹرز دیکھے ہیں؛ جو رام ناتھ گوینکا جیسے اخبار پر ظلم و ستم کے باوجود ایمرجنسی کے دوران ہمت کا مظاہرہ کرتے تھے۔
ہم ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جب غیر اعلانیہ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے گاندھیائی سوچ کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں انتظامیہ، میڈیا کی تحقیقات اور تفتیش کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کی ہمت نہیں رکھتی ہیں۔ حکومتیں 'آزادی صحافت' کی بات تو کرتی ہے؛ لیکن حقیقت میں یہ 'صحافت سے آزادی' کے لیے کام کرتی ہے۔
ہمیں گاندھی جی کی تحریروں کو نہ صرف ایک سیاستدان کے طور پر پڑھنا چائیے بلکہ گاندھی جی کو بہ طور ایک صحافی کے بھی پڑھنا ہوگا۔ ان کی یہ تحریریں سنہ 1903 سے لے کر 30 جنوری 1948 میں ان کے قتل تک مشتمل ہے۔ جن سے تیس کروڑ سے زائد لوگوں کی امیدیں آج بھی وابستہ ہے۔
یہ وقت گاندھیائی صحافت پر یقین رکھنے کا حقیقی دور ہے۔گاندھی جی کے پتلے بنا کر جھکنے کے بجائے ہمیں ان کے عظیم پیغام کو آج بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ان کے 150ویں یوم پیدائش پر ایک بہترین خراج عقیدت ثابت ہوگا۔