ایک صدی قبل بل گیٹس نے ہمیں ایک بار تشویش میں مبتلا کیا تھا۔ فی الوقت کووڈ 19 یعنی کورونا وائرس عالمی سطح پر ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو متاثر کر کے سماجی اور اقتصادی شعبے کو برباد کر رہا ہے۔ اگرچہ عالمی ادارہ صحت کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کو قابو کیا جا سکتا ہے لیکن بھارت سمیت 80ممالک پہلے ہی اس کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہیں۔ اگرچہ اس وائرس کے منبع یعنی چین جہاں سے اس کا پھیلاؤ شروع ہوا ہے وہاں اس کے پھلاؤ پر قابو پایا جا چکا ہے۔ لیکن ایران، اٹلی، جنوبی کوریا اور جاپان میں اس وائرس کی وجہ سے اب تک مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اٹلی سے یہ جان لیوا وائرس 24متاثرین کے ذریعے 14 دیگر ممالک اور ایران سے 97متاثرین کے ذریعے 11ممالک میں پھیل گیا ہے۔
بھارت میں پائے گئے 30 متاثرین میں سے آدھوں کا تعلق اٹلی سے آئے ہوئے سیاحوں کے ساتھ تھا۔ حکومت ہند کی طرف سے انٹیگریٹڈ ڈیزیز سرویلنس پروگرام (آئی ڈی ایس پی) کے تحت تمام ریاستوں میں بیماریوں کا پتہ لگانے اور ملک کے ہوائی اڈوں اور 65 بندرگاہوں پر پہنچنے والے ملکی و غیر ملکی مسافروں کی باریک بینی سے جانچ کر رہی ہے۔ یہ جاری بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنایا گیا واجب انتظام ہے۔
تلنگانہ کی عدالت عالیہ نے انسٹی ٹیوٹ آف پریوینٹیومیڈیسن کے ڈائریکٹر کے انتباہ کے تناظر میں ہدایت دیا گیا تھا کہ امکان ہے کورونا وائرس کچی آبادی والے علاقوں سے پھیل سکتا ہے۔اس سلسلے میں عدالت عالیہ نے ایسی بستیوں میں پانی کی مناسب فراہمی اور ان بستیوں کے قریب خصوصی وارڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔
عدالت نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کھانسی اور چھینک کے ذریعے وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے کچی آبادی میں رہنے والوں میں ماسک اور سینٹائزر تقسیم کرے۔چین میں جہاں ایک مربع کلومیٹر رقبے میں 148 افراد کی آبادی کا پھیلاؤ ہے وہیں بھارت میں یہ پھیلاؤ 420 افراد فی مربع کلومیٹر ہے اور اگر کووڈ 19 گھنی آبادی والی کچی بستیوں میں پھیلتا ہے تو اس کے نتائج کافی سنگین ہو سکتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ کورونا وائرس کے ساتھ جاری رواں جنگ میں ہر شہری خود کے لئے اور قوم کے دفاع کے لئے ایک فوجی کی طرح اپنا کردار ادا کرے۔
اگرچہ عالمی ادرہ صحت نے اب تک کووڈ 19 کو وبائی مرض قرار دینے سے گریز کیا تھا لیکن چینی صدر ذی جی پنگ کا یہ کہنا کہ مذکورہ وائرس اپنی انتہا تک نہیں پہنچا ہے جو قابل تشویش امر ہے۔اس بیماری کے مرکز یعنی چین میں 80 ہزار تصدیق شدہ کووڈ 19 کے مریضوں میں سے تین ہزار کی موت واقع ہوچکی ہے جبکہ چھ ہزار افراد اس بیماری سے بچنےکےلیے زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
کچھ اطلاعات کے مطابق کہ کووڈ 19 وائرس چین کے لیبارٹریوں میں ہی تیار کیا گیا ہے۔چین کے بعد سب زیادہ ہلاکتیں اٹلی (148)، ایران (107)اور جنوبی کوریا (35)میں ہوئی ہیں ۔امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں کورونا وائرس سے خوفزدہ ہونے کے وجہ صاف ہے۔جبکہ متاثرہ کورونا وائرس کے سات اقسام ہیں اور ان میں سے چار اقسام خطرے سے باہر ہیں جبکہ ان میں سے تین اقسام میرس (ایم ایس آر ایس) اور سارس (ایس اے آر سی) کورونا وائرس کی ہم شکل ہیں۔
مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا کے 80فیصد تک کے معاملات ہلکے قسم کے تھے جبکہ 18فیصد سنگین معاملے تھے جبکہ باقی 2فیصد مہلک تھے۔ ایک صدی قبل یعنی ہسپانوی فلو یا اسپینش فلو سے دینا کی 40فیصد آبادی اثر انداز ہوئی تھی جس کی وجہ سے 5 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ سنہ 1957میں ایشیائی فلو نے 20لاکھ لوگوں کی جان لی جبکہ سنہ 1968کے ہانگ کانگ فلونے 33ہزار افراد نگل لیا تھا۔ ان تجربات کے پیش نظر کووڈ 19 کے نتیجے میں اْبھرے بحران نے دنیا بھر کے بہت سے ممالک میں خوف کی لہر پھیلا دی ہے۔
ایسے میں ماہرین اس تشویش میں مْبتلا ہیں کہ بھارت اپنے ناقص حفظانِ صحت کے نظام اور نہ ہونے کے برابر صحتِ عامہ کی پالیسی کے ساتھ کورونا وائرس کا مْقابلہ کیسے کرے گا۔چین جو دسمبر کے مہینے میں پہلے وائرس کے پھیلاؤ کی شدت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہا ۔اس نے بعد میں اس کو قابو کرنے لئے انتہائی اوروسیع اقدام اْٹھائے۔صرف 9دن کے اندرچینی حکومت نے دن رات کی طبی نگرانی کے ساتھ ایک ہزار بستروں پر مْشتمل ہسپتال تعمیر کیا۔
وبائی بیماری کے ساتھ لڑتے ہوئے 200ماہرینِ طب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔شفایاب مریضوں کے دوبارہ مرض میں مْبتلا ہونے میں اضافے کی تشویش کی وجہ نے کووڈ 19 کے خلاف مشترکہ جنگ کی ضرورت بڑھا دی ہے
کیرالہ حکومت نے بیرونِ ملک سے آئے تین مسافروں کو الگ تھلگ کر نے کے فوری اقدام نے ریاست میں مزید پھلاؤ کو روکا ہے۔کیرالہ حکومت کی دفاع کی پہلی لائن کے طور پر امیگریشن حکام، پولیس، پنچایتوں، صحت کارکنوں اور ڈاکٹروں کو با اختیار بنانے کی کوشش کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے کیرالہ حکومت نے اپنے لوگوں میں بیداری مہم شروع کر دی۔حکومت نے نِپاہ کے گذشتہ پھلاؤ کو نظر میں رکھتے ہوئے فوری اقدامات اْٹھائے۔کیرالہ کے صحت عامہ کے ابتدائی مراکز کے چاق و چوبند اور مضبوط نظام نے صورتحال کا مقابلہ کرنے میں مدد کی ہے۔حکومتوں کو چاہیے کہ وہ عوام میں شعوری بیداری اْجاگر کرے،افواہوں پر روک لگائے اورسخت خود حفاظتی نظام لاگو کر کے وائرس کے خطرے کو ختم کرنے کے لئے کام کرے۔