مذکورہ بل کی اصلی شکل کو 17 جولائی 2019 کو منظوری دی گئی تھی۔ یہ منظوری کابینہ کی طرف سے دی گئی تھی اور اسے بالترتیب 29 جولائی 2019 اور یکم اگست 2019 کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کیا گیا تھا۔
نیشنل میڈیکل کمیشن بل 2019 میں حسب ذیل تبدیلیاں پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کی گئی تھیں جسے 17 جولائی 2019 کو کابینہ کی طرف سے منظوری دی گئی تھی اور ان تبدیلیوں کے بارے میں کابینہ کو آگاہ کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ لوک سبھا میں مکمل اپوزیشن نے انڈین میڈیکل کونسل (ایم سی آئی) کی جگہ لینے والے نیشنل میڈیکل کمیشن بل ،2019 کو غریب مخالف اور سماجی انصاف کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اپوزیشن نے ایوان میں بل کو ڈاکٹروں کے حقوق کو کم کرنے والا بتاتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے ایم سی آئی سمیت مختلف آئینی اداروں کو کمزور کیا ہے۔
جبکہ بل کو بحث کے لیے پیش کرتے ہوئے صحت اور خاندانی فلاح و بہبود کے وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ تھا کہ یہ بل ملک کے میڈیکل شعبہ کی تاریخ میں بڑی اصلاحات میں سے ایک شمار کیا جائےگا۔ انہوں نے کہا کہ تھا کہ' اس بل کے ذریعہ ملک کے میڈیکل کالجز میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کورسز کی سیٹوں کی تعداد کا تعین اور ان کی تقسیم یکساں طور پر کی جائے گی تاکہ ملک بھر میں سبھی جگہوں پر مناسب تعداد میں سیٹیں مہیا ہو سکیں۔ ایم بی بی ایس کی بیس ہزار اور پی جی کی 17ہزار سیٹیں ہوں گی۔
میڈیکل کی تعلیم مہنگی ہونے کے سوالات پر وزیر صحت نے کہا تھا کہ' ملک میں 75فیصد میڈیکل ایجوکیشن کی سیٹیں سستی فیس والی ہیں جبکہ نجی میڈیکل کالجز میں مہنگی سیٹیں 25 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ ڈاکٹر ہرش وردھن کی طویل تقریر پر کانگریس رہنما ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ تھا کہ اس بل پر بحث کے لیے چار گھنٹے کا وقت طے گیا گیا ہے۔ چونکہ وزیر نے زیادہ وقت لے لیا ہے،اس لیے اس وقت کو بحث کے تحت شمار نہیں کیا جائے۔