طویل انتظار کے بعد سپریم کورٹ نے ہندو لڑکیوں کو باپ کی جائیداد میں لڑکے کے برابر حصہ دینے کا فیصلہ دیا ہے۔ اس فیصلے سے مسلم دانشور فکر مند ہوگئے ہیں، دانشوروں کو اس بات کی فکر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو مسلم لڑکیاں بھی باپ کی جائیداد میں لڑکے کے برابر اپنا حصہ مانگنے تین طلاق کی طرح سپریم کورٹ کو رخ کر لیں اور کہیں یہ فیصلہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی بنیاد نہ بن جائے۔
ہندو مذہب میں لڑکیوں کو جائیداد میں قانونی طور پر کوئی حصہ نہیں ملتا تھا اس لیے ہندو لڑکیوں کا طویل مدت سے اپنے باپ کی جائیداد میں حصہ داری کا مطالبہ سپریم کورٹ میں زیر غور تھا۔ اس فیصلے پر دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ جذباتی طور پر لیا گیا ہے اس پر زیادہ غور و خوص نہیں کیا گیا ہے۔
دراصل مسلم سماج میں لڑکی کو باپ کی جائیداد میں لڑکے سے نصف حصہ دیا گیا ہے کیونکہ اسلام میں لڑکی کی جب تک شادی نہیں ہوتی باپ کی کفالت میں ہوتی ہے اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی کفالت میں ہوتی ہے اس پر کسی بھی طرح کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے اور شوہر کی کفالت کی ذمہ داری بھی لڑکی پر نہیں ہے. اسلام میں لڑکی اپنے شوہر کے انتقال کے بعد جائیداد میں بھی حصہ کی حقدار ہوتی ہے، ایسی صورت میں لڑکی کو دو طرف سے جائیداد میں حصہ مل رہا ہے وہی لڑکے کو صرف باپ کی ہی جائیداد میں حصہ مل رہا ہے اس لئے اسلام میں لڑکے کو لڑکی سے دوہرہ حصہ دیا گیا ہے اور لڑکے پر ذمہ داریاں بھی ڈالی گئی ہیں جبکہ لڑکیوں کو ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے۔