ریاست میں پسماندہ طبقہ (ای بی سی) کے قریب 26 فیصد ووٹ ہیں، اس کے بعد سب سے زیادہ 17 فیصد ووٹ مسلمانوں کے ہیں۔ ای بی سی ووٹ متعدد جماعتوں کے درمیان تقسیم ہو جاتے ہیں جبکہ مسلمان عام طور پر متحد ہو کر این ڈی اے اتحاد کے مخالف جاتے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں مسلمانوں کے متحد ہو کر ووٹ ڈالے جانے کے بعد عظیم اتحاد کی جماعتوں آر جے ڈی، کانگریس اور جے ڈی یو کو فائدہ ہوا تھا۔
لیکن اس بار جے ڈی یو اور بی جے پی میں اتحاد ہونے کی وجہ سے مسلم ووٹرز متحد ہو کر عظیم اتحاد کی جماعتوں کو اپنی حمایت دے سکتے ہیں لہذا سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ مسلم اکثریتی نشستوں پر این ڈی اے اتحاد کو سخت مقابلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔
بہار میں تقریباً 60 سے 65 نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹرز کی آبادی 20-70 فیصد کے درمیان ہے لہذا اگر ان نشستوں پر ان کے ووٹ متحد ہو جاتے ہیں تو اس کا اثر یقینی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کنہیا کمار اور تیجسوی عظیم اتحاد کی مہم کا حصہ
کوچا دھامن، آمور، جوکی ہاٹ، منیہاری، سکٹا وغیرہ ایسی نشستیں ہیں جہاں مسلم ووٹرز سب سے زیادہ ہیں، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انتخابات میں مندر، شہریت کے قانون وغیرہ سے متعلق معاملے اٹھائے جائیں گے جس سے ووٹوں کا پولرائزیشن ہوگا اور یہی پولرائزیشن مسلم ووٹوں کو متحد کر سکتا ہے۔
جب اویسی حیدرآباد سے باہر دوسری ریاستوں میں انتخابات لڑنے کے لیے جاتے ہیں تو شبہ ہوتا ہے کیونکہ وہ تنظیموں اور تیاریوں کے بغیر دوسری ریاستوں میں انتخابات لڑتے ہیں۔ تب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کسی اور کے اصرار پر مسلم ووٹ تقسیم کرنے کے لیے آئے ہیں جس کی وجہ اویسی کا اثر بہار الیکشن میں نہیں ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اویسی کی پارٹی کسی اچھے امیدوار کا انتخاب کرتی ہے تو امیدوار کے ذاتی اثرات کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔