دہلی کے شاہین باغ میں 15 دسمبر سے ہونے والا مظاہرہ اس وقت ملک میں عوام کے لیے ایک مثال بنا ہوا ہے اسی طرز پر ملک کے مختلف علاقوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
ایک جانب جہاں شہریت ترمیمی قانون کے تعلق سے حکومت سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے تو وہیں دوسری جانب عوام اس قانون کے مخالفت میں پیچھے ہٹنے کو بالکل تیار نہیں ہے اور اپنے ارادوں میں پر عزم دکھائی دے رہی ہے۔
اس وقت پورا ملک سراپا احتجاج اور دھرنے کے پنڈال میں تبدیل ہوچکا ہے وہیں ممبرا میں بھی احتجاجی ریلی، طلبأ کی جانب سے مظاہرے کرنے کے بعد اب بے مدت احتجاجی دھرنا شروع کیا گیا۔
آج دوپہر 12 بجے سے شروع ہونے والے اس احتجاجی دھرنا میں میک کمپنی کے پاس شام تک خواتین و مرد حضرات کا سیلاب امڈ پڑا جس میں کثیر تعداد میں طالبات بھی شامل ہونے ہوئیں۔
ان طالبات نے کہا کہ ان کے امتحان چل رہے ہیں اور وہ امتحان گاہ سے سیدھے احتجاج گاہ پہنچی ہیں اور دہلی میں شاہین باغ کی خواتین، جے این یو و جامعہ کے طلبہ و طالبات کو دیکھ کر انھیں حوصلہ ملتا ہے آج وہ یہاں ان کی طلبأ کی حمایت میں اور اس قانون کے خلاف پہنچی ہیں اور آئندہ بھی آئیں گی۔
اسی طرح ایک خاتون نے بتایا کہ بچوں کو اسکول بھیج کر وہ فوراً یہاں آگئی ہیں اور گھر کا کام کاج چھوڑ کر آج یہیں بیٹھیں گی اور جب بچوں کا وقت ہوگا اسکول سے آنے کا تب ہی گھر جائیں گی۔
اس طرح یہاں ایک سماجی کارکن اور پنڈال میں خدمات انجام دینے والے شخص نے بتایا کہ اس ملک کو دنیا میں جمہوریت کے نام سے پہچانا جاتا ہے یہاں سب کے لیے یکساں قانون ہے لیکن موجودہ حکومت آئین میں ترمیم کر کے جمہوریت کے چہرہ کو مسخ کر دنیا بھر میں ملک کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے لیے خوف کا ماحول پیدا کر نا چاہتی ہے جو اس ملک کی عوام کبھی نہیں ہونے دے گی۔
ایک اور احتجاجی نے بتایا کہ ملک بھر میں احتجاج و مظاہرے کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکومت ڈر گئی ہے خوف میں بھی ہے لیکن اپنی اڑیل بازی کا مظاہرہ کر رہی ہے عوام کے سامنے انگریز نہیں ٹک سکے تو یہ کیا ہیں احتجاج و مظاہروں کے آگے بڑی سے بڑی حکومتیں جھکی ہیں۔
اس طرح یہاں موجود مظاہرین نے آزادی ، انقلاب، نو این آرسی، نو سی اے اے کے نعرے لگائے جب کہ طلبأ آزادی والے اور حوصلہ کن گیت پڑھ رہے تھے اس کے علاوہ شہر بھر کی سماجی و سیاسی شخصیات بھی اس احتجاج میں بلا تفریق پہنچ کر اس احتجاج میں اپنا نام درج کرواتے نظر آئے۔