سپریم کورٹ نے آندھراپردیش کے تمام سرکاری اسکولوں کو انگریزی میڈیم میں تبدیل کرنے کے معاملے میں منگل کے روز کہا کہ مادری زبان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس شرد اروند بوبڑے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی رام سبرمنیم کی ڈویژن بنچ نے آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والی ریاستی حکومت کی خصوصی اجازت کی درخواست پر سماعت کے دوران کہا کہ مادری زبان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مادری زبان کے ذریعہ پڑھائی لکھائی کرنا کسی بھی بچے کی ٹھوس بنیاد ہے۔
جسٹس بوبڑے نے کہا "ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ بنیاد سازی کے لیے بچے کو مادری زبان کے ذریعے پڑھانا ضروری ہے"۔
آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے ریاست کے تمام اسکولوں کو انگریزی میڈیم میں تبدیل کرنے کے جگن موہن ریڈی حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے، جسے حکومت کی جانب سے عدالت عظمی میں چیلنج کیا گیا ہے۔
آندھرا پردیش حکومت کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کے وی وشوناتھن نے یہ دلیل دی کی کہ مادری زبان سے سمجھوتہ نہیں کیا جارہا ہے۔ غریب طلبہ انگلش میڈیم کی خطیر فیس ادا کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ ریاست کے 96 فیصد والدین اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں، جبکہ تلگو زبان کے لئے ہر ڈویژن میں ایک اسکول ہے۔
یہ بھی پڑھیے
جھارکھنڈ کوئلہ گھوٹالہ: سابق مرکزی وزیر دلیپ رے قصوروار قرار
عدالت عظمی نے دیگر فریقوں کو بھی ریاستی حکومت کی درخواست پر نوٹس جاری کیا ہے، جس پر اگلے ہفتے سماعت ہوگی۔
واضح ر ہے کہ آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے اپریل میں جگن موہن ریڈی حکومت کے اس حکم کو کالعدم قرار دیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ درجہ اول سے درجہ ششم تک کے تمام سرکاری اسکولوں کو تعلیمی سیشن 2021-22 سے انگریزی میڈیم میں تبدیل کیا جائے گا۔