مدر ٹریسا مقدونیہ کے شہر سکوپیہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ تاہم ان پر البانوی اور مقدونیائی باشندوں کا یکساں دعویٰ ہے کیونکہ اس وقت مقدونیہ کے نام سے کسی ملک کا وجود نہیں تھا بلکہ یہ شہر سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔
ان کا تعلق ایک مذہبی خاندان سے تھا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم یوگوسلاویہ کے ایک مذہبی سکول سے حاصل کی، دس سال کے عمر میں والد کے انتقال سے انکے ایمان اور عقیدے پر گہرا اثر پڑا۔
سنہ 1928ء میں مدر ٹریسا کو مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئرلینڈ کے شہر ڈبلن بھیج دیا گیا اور 1929ء میں انہیں انسانی فرائض سرانجام دینے کی غرض سے بنگال میں واقع لوریٹو نامی خانقاہ بھیج دیا گیا ۔
سنہ 1931ء میں اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے وہ راہبہ بن گئیں، اب وہ سسٹر ٹریسا کہلانے لگیں۔ سنہ 1937 میں وہ مدر ٹریسا بن گئیں۔
انہوں نے اپنے ادارے کی بنیاد 1950 میں محض بارہ راہباؤں کے ہمراہ رکھی تھی جن کی تعداد بعد میں بڑھ کر ساڑھے چار سو تک اور دائرہ کار 133 ممالک تک جاپہنچا۔ انکے فلاحی کاموں میں مریضوں کا علاج، یتیم اور بیواوٗوں کی مدد شامل ہے۔
مدرٹریسا پیسوں کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور ان کے حوالے سے مشہور تھا کہ وہ مالی امداد اور عطیات قبول نہیں کرتیں بلکہ مدد میں ذاتی شرکت کو ترجیح دیا کرتی تھیں ۔
مدر ٹریسا کو غریبوں اور ناداروں کے لئے کئی دہائیوں پر مشتمل ان کی خدمات کے صلہ میں 1989ء میں نوبل انعام سے نوازا گیا، جسکی انعامی رقم مدرٹریسا نے فلاحی کاموں کیلئے پیش کردیا۔ اس کے علاوہ 2016ء میں پاپائے روم فرانسس نے مدر ٹریسا کو ’بابرکت‘ شخصیت قرار دیا تھا۔ یہ سعادت ’سینٹ‘ قرار دیئے جانے یا عیسائیت کے تحت ’ولایت‘ (ولی بن جانے) کا مرتبہ حاصل کرنے کے مراحل میں سے آخری مرحلہ ہے۔
مدر ٹریسا نے سب کو متحد ہوکر کام کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے خیالات آج بھی زندہ ہیں جو کسی کو بھی نئے انداز میں زندگی گزارنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
دنیا بھرما میں محبت اور مہربانی کی بت کے طور مشہور مدر ٹریسا نے اپنی پوری زندگی دوسروں کے نام کر دیا۔
مدر ٹریسا کا نام لیتے ہی چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ لامحدود محبت اور اس کے چہرے پر ایک خاص چمک والی یہ مشہور شخصیت پوری زندگی غریب ، بیمار اور لاچار لوگوں کی مدد کرتی رہی ہیں۔ چھوٹی عمر ہی سے مدر ٹریسا نے لوگوں کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔
مدر ٹریسا کیتھولک راہبہ تھیں جنہوں نے کبھی بھی غریبوں اور مصیبت زدہ مریضوں کی خدمت کرنے سے گریز نہیں کیا۔ مدر ٹریسا جو کہ دنیا میں امن کے سفیر کی حیثیت سے کام کرتی رہیں۔
حکومت ہند نے ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں انہیں بھارت رتن سے نوازا۔
مدر ٹریسا نے سب کو ہمدردی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ترغیب دی۔ ان کے خیالات آج بھی زندہ ہیں جو کسی کو بھی نئے انداز میں زندگی گزارنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ پانچ ستمبر کو دنیا بھر میں غریبوں کی مسیحا مدر ٹریسا کی برسی منائی جاتی ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
آج ہم آپ کے ساتھ ان کے کچھ خیالات شیئر کریں گے جو آپ کی زندگی کو صحیح سمت دینے میں معاون ثابت ہوں گے۔
1۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر یقین کریں کیونکہ آپ کی طاقت ان ہی میں ہوتی ہے۔ یہی آپ کو آگے لے جاتی ہے۔
2۔ اگر ہمارے ذہن میں سکون نہیں ہے تو اس کی وجہ ہے کہ ہم بھول چکے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔
3۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنے پڑوسی کے بارے میں پریشان ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پڑوسی کون ہے؟
4۔ خدا ہم سے کامیابی کی توقع نہیں رکھتا، وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ ہم کوشش کریں۔
5۔ کل تو چلا گیا، آنے والا کل ابھی آیا نہیں، ہمارے پاس صرف آج ہے۔ آئیے شروعات کرتے ہیں۔
6۔ ہم کبھی نہیں جان پائیں گے کہ ایک چھوٹی سی مسکراہٹ کتنا فائدہ پہنچا سکتی ہے اور بہت سارے لوگوں کو خوشی دے سکتی ہے۔
7۔ جو کچھ آپ نے بہت سارے برسوں میں بنایا ہے وہ رات میں ہی تباہ ہوسکتا ہے ، لیکن پھر بھی اسے بناتے رہیں آگے بڑھتے رہیں۔
8۔ لوگ غیر حقیقت پسندانہ ، غیر منطقی اور روح مرکوز ہیں ، پھر بھی انھیں محبت دیں۔
9۔ میرے خیال میں ہمارے لئے غمزدہ ہونا اچھا ہے، میرے نزدیک یہ یسوع کو بوسہ دینے کے مترادف ہے۔
10۔ سب سے بڑی بیماری جذام یا تپ دق نہیں ہے، بلکہ ناپسندیدہ ہونا سب سے بڑی بیماری ہے۔
مرض اور انتقال:
سنہ 1985ء میں جب مدر ٹریسا روم کے دورے پر تھیں وہاں انھیں دل کا دورہ پڑا، 1989ء میں ان کو ایک اور دل کا دورہ پڑا جو پہلے والے دورے سے زیادہ خطرناک تھا، اس بار ان کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کی وجہ سے ان کا آپریشن کیا گیا۔
وہیں سنہ 1991ء میں جب وہ میکسیکو میں تھیں تو وہاں نیمونیا کا شکار ہوگئیں جس نے ان کے دل پر منفی اثرات مرتب کئے، 1996ء میں ایک بار پھر انکے دل کا آپریشن ہوا، اور 5 ستمبر 1997ء میں طویل علالت کے بعد مدر ٹریسا انتقال کرگئیں۔