حکومت سازی کے وقت سیاسی جماعتیں لاکھ دعویٰ کرے کہ اس کی پہلی ترجیح ان غریب عوام کے گھروں تک پہنچنا ہے جہاں دو وقت کی روٹی میسر نہیں تاہم اقتدار میں آنے کے بعد ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔
بہار کے ضلع ارریہ میں ایک 80 سالہ معذور شخص کو 2 سال قبل سرکاری فائلوں میں مردہ قرار دے کر طرح کی سہولیات سے محروم کر دیا گیاتھا، اور وہ شخص زندگی کی آخری سانس تک اپنے زندہ ہونے کا ثبوت لیے سرکاری دفتروں کا چکر لگاتا رہا مگر اس کی اس بے بسی اور قابل رحم حال پر کسی سرکاری افسر بابو کو رحم نہیں آیا۔
سرکاری مار اور بیماری سے متاثر محمد دربان کی آج حقیقی موت ہوگئی۔
ابھی کچھ دنوں قبل ای ٹی وی بھارت نے محمد دربان کی حالات سے عوامی نمائندوں سے لیکر انتظامیہ تک کو بیدار کیا تھا مگر اس سے پہلے کچھ کارروائی ہوتی دربان نہیں رہا۔
جیتے جی محمد دربان نے ای ٹی وی نمائندہ سے خود پر ہو رہے ظلم و ستم کی داستان زار و قطار رو کر سنائی تھی اور پرامید ہو کر انصاف کا مطالبہ کیا تھا اور دردمندانہ اپیل کی تھی، اس اسٹوری کے چلنے کے بعد عوامی سطح پر کئ مدد کے لیےسامنے بھی آئے۔
محمد دربان ارریہ کے جوکی ہاٹ بلاک کے گیرکی مسوریہ پنچایت کے فرسا ڈانگی گاؤں کے وارڈ نمبر تین کے رہنے والے تھے، دربان کی عمر تقریباً 80 سال تھی۔ حکومتی منصوبہ کے تحت اسے ضعیف العمر پینشن بھی مل رہا تھا جس سے اس گزر بسر ہو رہی تھی، مگر 2017 کے بعد سرکاری فائلوں میں اسے مردہ قرار دے کر اسے ملنے والی پینشن سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے بعد اپنے شناختی کارڈ اور اپنے سارے سرکاری دستاویزا ت لے کر وہ سر کاری دفتروں کا چکر لگا رہا تھا۔
دربان 2017 سے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا تھا مگر کسی نے اسے زندہ نہیں مانا، شاید اب اسے مرنے کا ثبوت مل گیا ہو. زندگی کے آخری پڑاؤ پر سرکاری سسٹم نے جس طرح دربان کو خون کی آنسو رلایا ہے اس کی جوابدہی عوام کو طے کرنی ہوگی۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سرکاری سسٹم اور عوام نمائندوں کی لاپرواہی کا شکار دربان گذر گیا، مگر یہ کہانی صرف ایک دربان کی نہیں بلکہ اس پورے سیمانچل کے مختلف گاوں میں اور بھی کئی ایسے بزرگ ہیں جو سرکاری لاپرواہی کے شکار ہیں۔