ETV Bharat / bharat

مودی جی، آئیے ہم سب مل کر کام کریں

نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر اندرا شیکھر سنگھ نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن میں مزید توسیع نہیں کرنی چاہیے۔ہمیں اب اپنی معیشت کو مزید بند نہیں رکھنا چاہئے، اسے مکمل طور پر بحال کیا جاناچاہئے کیونکہ اپنی معیشت کو بچانے کے آپشن آہستہ آہستہ ختم ہو تے جا رہے ہیں ۔دیر سویر یہ صورتحال ختم ہو جائیگی لیکن ہماری معیشت کی سستی برقرار رہ سکتی ہے ۔جبکہ لاکھوں لوگ کورونا نہیں بلکہ غذا نہ ہونے اور خراب صحت کی وجہ سے جاں بحق ہو جائیں گے ۔

author img

By

Published : May 8, 2020, 8:01 PM IST

مودی جی، آئیے ہم سب مل کر کام کریں
مودی جی، آئیے ہم سب مل کر کام کریں

ہم وطنوں ! آپ نے ملک کو کورونا وائرس سے دور رکھنے کیلئے جو کچھ بھی بن پڑا آپ نے کیا ۔بھارت میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی شرح 3.27 فیصد ہے، جو کہ قابل تعریف ہے ۔اب یہ لازمی ہے ہم اپنی توانائی کو متحد کرکے ونٹیلیٹر کو ہٹائیں تاکہ ملک اور اس کی معیشت اپنے آپ سانس لے سکے ۔بھارت کیلئے ضروری ہے کہ وہ واپس کام پر لوٹ جائے ۔ریڈ زون، گرین زون اور اورینج زون سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وائرس تب بھی موجود رہے گا اور ہمیں خود کو اس کے رہتے ہوئے بھی کام کرنے کی تیاری کرنی چاہئے ۔

حیرت انگیز طور پر جہاں تک طبی شعبے کا تعلق ہے ‘ ہم نے اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ملک کی اس وائرس سے صحت یابی کی اوسط شرح 27.5 فیصد ہے ۔(4 مئی تک کے 42,533 کیسوں میں سے صرف1,391 افراد جاں بحق ہو گئے )۔لیکن جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو اسے کافی نقصان پہنچا ہے ۔کرفیو نے ہمیں جتنا نقصان کیا ہے اتنا وائرس سے نہیں ہو ا ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق400 ملین بھارتی ورکر غربت کے بوجھ تلے دھنس جائیں گے ۔نوبل انعام یافتہ ‘ماہر اقتصادیات ‘ ابھیجیت بینرجی کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کے جی ڈی پی میں مجموعی طور پر دس سے پندرہ فیصد گراوٹ آ سکتی ہے۔یہ ایک سنگین صورتحال ہے جو مزید ابتر ہو جائیگی ۔وہ تصویر اب بھی ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے جس میں ایک شخص سڑک پر گرے دودھ کو ا پنے ہاتھوں سے اٹھانے کی کوشش کررہا ہے جب کہ اس کے پاس کھڑے کتے اس دودھ کو چاٹ رہے تھے۔

وائرس کی فطرت جنگلی حیاتات جیسے ہیں ‘ جنہیں کوئی دوا اور نہ ویکسین باندھ سکتی ہے ‘کیونکہ یہ جاندار اور نہ غیر جاندارہیں۔یہ سازگار میزبان(favourable host) ملنے پر زندہ ہو جاتے ہیں اور بقیہ اوقات یہ غیر جاندار رہتے ہیں‘بالکل ایک پتھر کی طرح ۔ارتقائی عمل میں ہمیں ان کے رول کا انکار نہیں کرنا چاہیے ۔ ان میں سے جو وحشی ہیںوہ ہم پر حملہ آور ہو ئے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ ایسے فائدے مند بھی ہیں جو ہمیں زندہ اور تندرست رہنے میں ہر روز ہماری مدد کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ وحشی وائرس کیخلاف ہم نے قوت مدافعت اور جینیاتی مزاحمت پیدا کی ہے۔

ویکسین کے حوالے سے میڈیا خبروں سے بھرا پڑا ہے ‘ لیکن ویکسین زیادہ موثر نہیں ہو تی ہے جیسا ہم نے انفلینزا کے وقت میں دیکھا تھا ۔ہر ایک موسم میں ایک نئے ویکسین کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ اس وائرس کی فطرت میں تبدیلی آتی رہتی ہے ۔نصف صدی تک انتھک کوششوں کے باوجود انسان بھی ایچ آئی وی کا ویکسین دینے میں کامیاب نہیں ہوا ہے ۔ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے کورونا وائرس ویکسین کے موثر ہونے پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگائے ہیں ۔بھارت احمقانہ طور پر اس ویکسین کا انتظار نہیں کر سکتا ہے، جو شاید موثر ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ۔

ارتقائی تاریخ سی سبق لیتے ہو ئے ‘ ہمارے پاس ایک مضبوط قوت مدافعت پیدا کرنا ہی واحد راستہ ہے تاکہ وائرس کے خلاف کھڑے ہوسکیں اور یہی ہمیں کورونا یا پھر انفلوائنزا جیسے خطرناک وائرس سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

ویکسین موجو دنہ ہونے کے باجود ہم نے اس وائرس کو محدود رکھنے اور موت کی شرح کو کم رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس وائرس کا موازنہ ایک وحشی مرض یعنی ٹی بی(تپ دق) سے کریں ۔ہر سال اس مرض سے پندرہ لاکھ لوگ مررہے ہیں ۔کیا ہم اس کیلئے اپنی معیشت کو بند کر دیتے ہیں ؟نہیں ۔ہم اپنا کام جاری رکھتے ہیں اور ساتھ ہی لاکھوں ورکروں کا کوئی ٹیسٹ کئے بغیر‘ ہم انہیں موقع دیتے ہیں کہ وہ ہماری معیشت میں اپنا اشتراک دیں ۔تو کورونا وائرس اس سے مختلف کیوں ہو سکتا ہے ؟ٹی بی کا اگر کورونا وائرس سے موازنہ کیا جائے تو کئی معنوں میں اس سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے ۔

بھارت کو اور زیادہ حقیقت پسند ہونے کی ضرور ت ہے۔ہم اس وائرس کو محدود رکھنے میں کامیاب ہو ئے ہیں ۔ہمیں اب اپنی معیشت کو مزید بند نہیں رکھنا چاہئے، اسے مکمل طور پر بحال کیا جاناچاہئے کیونکہ اپنی معیشت کو بچانے کے آپشن آہستہ آہستہ ختم ہو تے جا رہے ہیں ۔دیر سویر یہ صورتحال ختم ہو جائیگی لیکن ہماری معیشت کی سستی برقرار رہ سکتی ہے ۔جبکہ لاکھوں لوگ کورونا نہیں بلکہ غذا نہ ہونے اور خراب صحت کی وجہ سے جاں بحق ہو جائیں گے ۔

چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کارخانوں کیلئے موت کی گھنٹی پہلے ہی بجنا شروع ہو گئی ہے اور اب مزید لاک ڈاؤن میں توسیع کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

کورونا ایک نئی حقیقت ہے جس کے ساتھ ہمیں زندہ رہنا اور کام کرنا سیکھنا ہو گا ۔ اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔کورونا سے یقینا تیزی سے انفکشن ہوتا ہے لیکن اس سے موت کی شرح بہت کم ہے ۔اور یہ اس کا ایک تسلی بخش پہلو ہے ۔ہم یہاں کورونا کے خطرات کو کم کرکے پیش نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن دہلی میں سڑک حادثات میں مرنے کے امکانات کورونا وائرس سے ہونے والی موت سے زیادہ ہیں ۔

زراعت کے شعبہ کو بہت پہلے کھول دیا گیا ہے ‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ فیصدی بھارتی مزدور معیشت کو بحال کرنے کے لیے پھر سے کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ہمیں تمام چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کارخانوں کو فوری طور پر کھولنے کی ضرورت ہے۔یہ بھارت کو نئے سرے سے شروع کرنے کیلئے سب سے آسان راستہ ہے ۔تمام ریاستوں میں کام سے متعلق تمام طرح کی نقل و حمل کو بحال کیاجانا چاہئے ۔ہم فی الحال کچھ وقت تک تفریحی سرگرمیاں معطل رکھ سکتے ہیں، لیکن بنیادی اقتصادی سرگرمیوں کو فوری طور پر بحال کیا جانا چاہئے ۔مندی کا دور ختم نہیں ہو اہے اور ہم بحران کے وقت دنیا کو سپلائی کرنے کی پوزیشن میں ہونے چاہئیں ۔یہ حقیقی معنوں میں ’میک اِن انڈیا‘ کا عملی مظاہرہ ہو گا ۔

جہاں انفرادی قوت مدافعت ایک کلیدی رول ادا کریگی وہاں حکومت کو وزارت آیوش کے ذریعے لوگوں کیلئے ایک نقش راہ جاری کر سکتی ہے ۔مثال کے طور پر مختلف ویٹامنوں کی اضافی خوراک اور غذا جو لوگ استعمال کر سکتے ہیں، بزنس ادارے اپنے ورکروں کو یہ دے سکتے ہیں تاکہ ان کی صحت اچھی رہے ۔

یقینا یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی حفاظت کرے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو جن کو وائرس سے زیادہ خطرہ نہیں ہے، ان کی آزادی کو دوبارہ بحال کرے ۔اس بات کا فیصلہ کرنے کا موقع ہمیں دیا جاناچاہئے کہ یا تو ہم کام کریں یا پھر گھروں میں بیٹھ کر اپنی بیوی بچوں اور والدین کو بھوک سے لڑتے دیکھیں۔ میں اپنے اور لاکھوں ہم وطنوں، جوعزت و وقار کے علاوہ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کا حق چاہتے ہیں، ان کیلئے آزادی اور کام کرنے کے حق کا انتخاب کروں گا ۔وہ کوئی خیرات ، کسی مالدار یا سرکار کا ترس نہیں چاہتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے محنت سے روز گار کمانے کا موقع دیا جائے تاکہ اگر انہیں موت بھی آئے تو وہ انہیں عزت سے اپنے ساتھ لے کر چلے جائے ۔

موت انسانی زندگی کا ایک فطرتی خاتمہ ہے، اس لئے موت کا سامنا کرنے میں کوئی خوف نہیں ہو نا چاہئے ۔ہم جس چیز سے ڈرنا چاہئے وہ ہمارے عزیز و اقارب کی تکالیف اور ان کے تئیں ذمہ داری اور فرائض کی ادائیگی میں ہماری عاجزی۔پانی اور خوراک کے علاوہ پیسہ ایک اہم ضرورت ہے۔ ہمیں کام کرنے دیاجانا چاہئے ۔کام کرنا، مقامی معیشت اور تجارت کو فروغ دینا ہمارے فرائض میں سے ہے ۔اگر ہم آج ثابت قدم رہیں تو ہم وہ اقتصادی قوت بنیں گے جو ہم بننا چاہتے ہیں ۔خوف اور ڈر کے دن ختم ہو گئے ، اب وقت آگیاکہ ہم اپنے فرائض پورا کریں۔ پروقار زندگی اور خوشحالی کی تعمیر نو کریں ۔

ہم وطنوں ! آپ نے ملک کو کورونا وائرس سے دور رکھنے کیلئے جو کچھ بھی بن پڑا آپ نے کیا ۔بھارت میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی شرح 3.27 فیصد ہے، جو کہ قابل تعریف ہے ۔اب یہ لازمی ہے ہم اپنی توانائی کو متحد کرکے ونٹیلیٹر کو ہٹائیں تاکہ ملک اور اس کی معیشت اپنے آپ سانس لے سکے ۔بھارت کیلئے ضروری ہے کہ وہ واپس کام پر لوٹ جائے ۔ریڈ زون، گرین زون اور اورینج زون سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وائرس تب بھی موجود رہے گا اور ہمیں خود کو اس کے رہتے ہوئے بھی کام کرنے کی تیاری کرنی چاہئے ۔

حیرت انگیز طور پر جہاں تک طبی شعبے کا تعلق ہے ‘ ہم نے اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ملک کی اس وائرس سے صحت یابی کی اوسط شرح 27.5 فیصد ہے ۔(4 مئی تک کے 42,533 کیسوں میں سے صرف1,391 افراد جاں بحق ہو گئے )۔لیکن جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو اسے کافی نقصان پہنچا ہے ۔کرفیو نے ہمیں جتنا نقصان کیا ہے اتنا وائرس سے نہیں ہو ا ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق400 ملین بھارتی ورکر غربت کے بوجھ تلے دھنس جائیں گے ۔نوبل انعام یافتہ ‘ماہر اقتصادیات ‘ ابھیجیت بینرجی کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کے جی ڈی پی میں مجموعی طور پر دس سے پندرہ فیصد گراوٹ آ سکتی ہے۔یہ ایک سنگین صورتحال ہے جو مزید ابتر ہو جائیگی ۔وہ تصویر اب بھی ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے جس میں ایک شخص سڑک پر گرے دودھ کو ا پنے ہاتھوں سے اٹھانے کی کوشش کررہا ہے جب کہ اس کے پاس کھڑے کتے اس دودھ کو چاٹ رہے تھے۔

وائرس کی فطرت جنگلی حیاتات جیسے ہیں ‘ جنہیں کوئی دوا اور نہ ویکسین باندھ سکتی ہے ‘کیونکہ یہ جاندار اور نہ غیر جاندارہیں۔یہ سازگار میزبان(favourable host) ملنے پر زندہ ہو جاتے ہیں اور بقیہ اوقات یہ غیر جاندار رہتے ہیں‘بالکل ایک پتھر کی طرح ۔ارتقائی عمل میں ہمیں ان کے رول کا انکار نہیں کرنا چاہیے ۔ ان میں سے جو وحشی ہیںوہ ہم پر حملہ آور ہو ئے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ ایسے فائدے مند بھی ہیں جو ہمیں زندہ اور تندرست رہنے میں ہر روز ہماری مدد کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ وحشی وائرس کیخلاف ہم نے قوت مدافعت اور جینیاتی مزاحمت پیدا کی ہے۔

ویکسین کے حوالے سے میڈیا خبروں سے بھرا پڑا ہے ‘ لیکن ویکسین زیادہ موثر نہیں ہو تی ہے جیسا ہم نے انفلینزا کے وقت میں دیکھا تھا ۔ہر ایک موسم میں ایک نئے ویکسین کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ اس وائرس کی فطرت میں تبدیلی آتی رہتی ہے ۔نصف صدی تک انتھک کوششوں کے باوجود انسان بھی ایچ آئی وی کا ویکسین دینے میں کامیاب نہیں ہوا ہے ۔ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے کورونا وائرس ویکسین کے موثر ہونے پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگائے ہیں ۔بھارت احمقانہ طور پر اس ویکسین کا انتظار نہیں کر سکتا ہے، جو شاید موثر ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ۔

ارتقائی تاریخ سی سبق لیتے ہو ئے ‘ ہمارے پاس ایک مضبوط قوت مدافعت پیدا کرنا ہی واحد راستہ ہے تاکہ وائرس کے خلاف کھڑے ہوسکیں اور یہی ہمیں کورونا یا پھر انفلوائنزا جیسے خطرناک وائرس سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

ویکسین موجو دنہ ہونے کے باجود ہم نے اس وائرس کو محدود رکھنے اور موت کی شرح کو کم رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس وائرس کا موازنہ ایک وحشی مرض یعنی ٹی بی(تپ دق) سے کریں ۔ہر سال اس مرض سے پندرہ لاکھ لوگ مررہے ہیں ۔کیا ہم اس کیلئے اپنی معیشت کو بند کر دیتے ہیں ؟نہیں ۔ہم اپنا کام جاری رکھتے ہیں اور ساتھ ہی لاکھوں ورکروں کا کوئی ٹیسٹ کئے بغیر‘ ہم انہیں موقع دیتے ہیں کہ وہ ہماری معیشت میں اپنا اشتراک دیں ۔تو کورونا وائرس اس سے مختلف کیوں ہو سکتا ہے ؟ٹی بی کا اگر کورونا وائرس سے موازنہ کیا جائے تو کئی معنوں میں اس سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے ۔

بھارت کو اور زیادہ حقیقت پسند ہونے کی ضرور ت ہے۔ہم اس وائرس کو محدود رکھنے میں کامیاب ہو ئے ہیں ۔ہمیں اب اپنی معیشت کو مزید بند نہیں رکھنا چاہئے، اسے مکمل طور پر بحال کیا جاناچاہئے کیونکہ اپنی معیشت کو بچانے کے آپشن آہستہ آہستہ ختم ہو تے جا رہے ہیں ۔دیر سویر یہ صورتحال ختم ہو جائیگی لیکن ہماری معیشت کی سستی برقرار رہ سکتی ہے ۔جبکہ لاکھوں لوگ کورونا نہیں بلکہ غذا نہ ہونے اور خراب صحت کی وجہ سے جاں بحق ہو جائیں گے ۔

چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کارخانوں کیلئے موت کی گھنٹی پہلے ہی بجنا شروع ہو گئی ہے اور اب مزید لاک ڈاؤن میں توسیع کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

کورونا ایک نئی حقیقت ہے جس کے ساتھ ہمیں زندہ رہنا اور کام کرنا سیکھنا ہو گا ۔ اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔کورونا سے یقینا تیزی سے انفکشن ہوتا ہے لیکن اس سے موت کی شرح بہت کم ہے ۔اور یہ اس کا ایک تسلی بخش پہلو ہے ۔ہم یہاں کورونا کے خطرات کو کم کرکے پیش نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن دہلی میں سڑک حادثات میں مرنے کے امکانات کورونا وائرس سے ہونے والی موت سے زیادہ ہیں ۔

زراعت کے شعبہ کو بہت پہلے کھول دیا گیا ہے ‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ فیصدی بھارتی مزدور معیشت کو بحال کرنے کے لیے پھر سے کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ہمیں تمام چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کارخانوں کو فوری طور پر کھولنے کی ضرورت ہے۔یہ بھارت کو نئے سرے سے شروع کرنے کیلئے سب سے آسان راستہ ہے ۔تمام ریاستوں میں کام سے متعلق تمام طرح کی نقل و حمل کو بحال کیاجانا چاہئے ۔ہم فی الحال کچھ وقت تک تفریحی سرگرمیاں معطل رکھ سکتے ہیں، لیکن بنیادی اقتصادی سرگرمیوں کو فوری طور پر بحال کیا جانا چاہئے ۔مندی کا دور ختم نہیں ہو اہے اور ہم بحران کے وقت دنیا کو سپلائی کرنے کی پوزیشن میں ہونے چاہئیں ۔یہ حقیقی معنوں میں ’میک اِن انڈیا‘ کا عملی مظاہرہ ہو گا ۔

جہاں انفرادی قوت مدافعت ایک کلیدی رول ادا کریگی وہاں حکومت کو وزارت آیوش کے ذریعے لوگوں کیلئے ایک نقش راہ جاری کر سکتی ہے ۔مثال کے طور پر مختلف ویٹامنوں کی اضافی خوراک اور غذا جو لوگ استعمال کر سکتے ہیں، بزنس ادارے اپنے ورکروں کو یہ دے سکتے ہیں تاکہ ان کی صحت اچھی رہے ۔

یقینا یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی حفاظت کرے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو جن کو وائرس سے زیادہ خطرہ نہیں ہے، ان کی آزادی کو دوبارہ بحال کرے ۔اس بات کا فیصلہ کرنے کا موقع ہمیں دیا جاناچاہئے کہ یا تو ہم کام کریں یا پھر گھروں میں بیٹھ کر اپنی بیوی بچوں اور والدین کو بھوک سے لڑتے دیکھیں۔ میں اپنے اور لاکھوں ہم وطنوں، جوعزت و وقار کے علاوہ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کا حق چاہتے ہیں، ان کیلئے آزادی اور کام کرنے کے حق کا انتخاب کروں گا ۔وہ کوئی خیرات ، کسی مالدار یا سرکار کا ترس نہیں چاہتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے محنت سے روز گار کمانے کا موقع دیا جائے تاکہ اگر انہیں موت بھی آئے تو وہ انہیں عزت سے اپنے ساتھ لے کر چلے جائے ۔

موت انسانی زندگی کا ایک فطرتی خاتمہ ہے، اس لئے موت کا سامنا کرنے میں کوئی خوف نہیں ہو نا چاہئے ۔ہم جس چیز سے ڈرنا چاہئے وہ ہمارے عزیز و اقارب کی تکالیف اور ان کے تئیں ذمہ داری اور فرائض کی ادائیگی میں ہماری عاجزی۔پانی اور خوراک کے علاوہ پیسہ ایک اہم ضرورت ہے۔ ہمیں کام کرنے دیاجانا چاہئے ۔کام کرنا، مقامی معیشت اور تجارت کو فروغ دینا ہمارے فرائض میں سے ہے ۔اگر ہم آج ثابت قدم رہیں تو ہم وہ اقتصادی قوت بنیں گے جو ہم بننا چاہتے ہیں ۔خوف اور ڈر کے دن ختم ہو گئے ، اب وقت آگیاکہ ہم اپنے فرائض پورا کریں۔ پروقار زندگی اور خوشحالی کی تعمیر نو کریں ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.