طویل عرصے سے معلق رہنے کے بعد بالآخر طلاق ثلاثہ بل آج راجیہ سبھا میں پاس ہو گیا۔
اس بل کی حمایت میں 99 ووٹ ڈالے گئے جبکہ مخالفت میں 84 ووٹ ڈالے گئے۔
راجیہ سبھا میں بل پیش کیے جانے کے دوران گہماگہمی رہی۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے ایوان سے واک آوٹ کیا جس کے بعد بآسانی بی جے پی حکومت اس بل کو پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
اس بل کے پاس ہونے کے بعد جہاں ایک طرف حکومت آج کا دن تاریخی قرار دے رہی ہے تو دوسری جانب حزب مخالف جماعتوں اور دیگر لوگوں نے اسے آج کی تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا ہے۔
اس بل سے متعلق پرانی دہلی میں خواتین کو خود مختار بنانے والی اسما عرشی نے کہا کہ تین طلاق کا بل کسی بھی طرح خواتین کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس بل سے خواتین کی صورت حال مزید بدتر ہو گی۔
وہیں مدرسہ غازی الدین کے امام مفتی محمد قاسم قاسمی نے کہا کہ جو لوگ تین طلاق کا بل بنا رہے ہیں انہیں ہم جھولا چھاپ ڈاکٹر سے زیادہ کچھ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ تین طلاق پر بل بنا رہے ہیں جسے سپریم کورٹ مانتا ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب تین طلاق قابل قبول ہی نہیں ہے تو اس پر سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟
تلنگانہ کانگریس کے رہنما محمد علی شبیر نے تین طلاق بل کی منظوری کو آر ایس ایس اور بی جے پی کے ایجنڈے کا آغاز قرار دیا۔
انہوں نے تین طلاق کے مسئلے پر ٹی آر ایس کے واک آؤٹ کو منصوبہ بند تائید قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے مجلس اتحادلمسلمین سے ٹی آر ایس کی تائید سے متعلق سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا اب بھی اسد الدین اویسی ٹی آر ایس کی حمایت کریں گے؟
دوسری جانب مسلم راشٹریہ منچ کی رکن قادر النساء نے بل کی منظوری کو خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے کیوں کہ طلاق اسلام میں نا پسندیدہ عمل ہے۔