کورونا پر قابو پانے کیلئے لاک ڈاون تو ٹھیک ہے لیکن بے یارومددگار پڑے لاکھوں بے بسوں کا کیا؟
کسی بھی قوم پر جنگ مسلط ہو تو اس کی تیاریوں کا پتہ چلتا ہے اور اس کے سرداروں کی کامیابی و صلاحیتوں کا فیصلہ تب ہوتا ہے جب وہ کم سے کم نقصان اٹھا کر جیت جائیں۔ کووِڈ19 - نامی وبا نے دنیا بھر کے ممالک کو خطرے سے دوچار کر کے انسانوں کی حفاظت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ چین نے 45 دن کا لاک ڈاون کرکے طبی ماہرین کے ہر اول دستہ کے ساتھ کورونا کے خلاف جنگ جیت لی جبکہ دوسری جانب جنوبی کوریا نے کسی لاک ڈاون کی ضرورت محسوس کرنے کے بغیر مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلی جنس) کا استعمال کر کے کورونا متاثرین کی نگرانی کی اور وائرس کو مزید پھیلنے سے روک دیا۔
بھارت جو سب سے گنجان آبادی والا ملک ہے اور وہ شدت کے ساتھ یہ مانتا ہے کہ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ملک گیر لاک ڈاون کی اشد ضرورت ہے اس لیے بھارت نے 21 دنوں کے لاک ڈاون کا اعلان کیا جس کے دوران اشیائے ضروریہ کی سپلائی کے سوا سب کچھ ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ مرکزی حکومت نے یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کی بہبودی کی ایک خاص اسکیم شروع کر دی ہے لیکن اُن لاکھوں مہاجر مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کیا جو کہیں کے نہیں ہیں۔ مہاجر مزدوروں، جن کے کُنبے لاک ڈاون کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ان کی حالتِ زار پتھردلوں تک کو پگھلا رہی ہے۔
بھارت سے باہر اس ملک کو اس کے انسانی وسائل کیلئے شہرت حاصل ہے۔ تاہم جب اس وسیلے میں مزید تخفیف ہوگی تو معلوم ہوجائے گا کہ اس وسیلہ کی ستون غیر ہنر مند مزدوروں پر کھڑی ہے۔ فیکٹریوں، گوداموں اور تعمیراتی کام کے اچانک بند ہونے کی وجہ سے ان مزدوروں کی زندگیاں تباہ ہوچکی ہیں اور ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ پروویڈنٹ فنڈ یا پنشن کی سہولت رکھنے والے دستی مزدور، امریکہ کام گاروں کے 3.7فیصد کے برابر ہے۔ روس میں یہ شرح فیصد 5.2،فرانس میں 7.4،جاپان میں 8.4،اسپین میں11.3اور برطانیہ میں 12.9ہے۔ بھارت میں ایسے غیر ہنر مند مزدوروں کی شرح فیصد مجموعی طور پر 76.2ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی زندگیاں مرکز اور ریاستی حکومت کی نافذ کردہ لاک ڈاون کی وجہ سے ایک المناک موڑ لے چکی ہیں۔
جیسا کہ عظیم شاعر سری سری نے کہا کہ وہ سب اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو طبقہ دنیا کو چلانے کیلئے چوبیس گھنٹے کام کرتا رہتا ہے۔ اپنے آبائی علاقوں میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے یہ مزدور روٹی اور روزگار کی تلاش میں دیگر ریاستوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔یہ وہ لوگ ہیں جنکی اکثریت کو یہ تک بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کورونا وائرس ہوتا کیا ہے یا موجودہ صورتحال کی شدت کیا ہے۔اب جبکہ شہروں میں روزگار کے مواقع اچانک ٹھپ ہوگئے ہیں اور مالکوں کی جانب سے انہیں زبردستی نکالا جانے لگا ہے یہ مزدور کہیں کے نہیں رہے ہیں۔ایسے میں جب بسیں اور ریل گاڑیاں بھی بند ہیں انہیں معلوم نہیں ہے کہ وہ آخر جائیں تو کہاں جائیں۔ایسے ہزاروں مزدور ہیں جو مجبور ہوکر اپنے کُنبوں کے ساتھ اپنے آبائی دیہات کی جانب پیدل چل پڑے ہیں ۔
آندھرا پردیش، بہار اور اُڑیسہ سے حیدرآباد تک کے تقریباََ 10 لاکھ مزدور ہیں جو گھروں، ہوٹلوں اور تعمیراتی سائٹس پر کام کرنے کیلئے ہجرت کرکے دوسرے شہروں کی طرف آنکلے ہیں اور آج ملک گیر تالہ بندی کی وجہ سے جس تکلیف کا انہیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔آندھرا پردیش میں مرچی کے کھیتوں میں کام کرنے والے تلنگانہ کے مہاجر مزدور کی کہانی دل دہلادینے والی ہے۔وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اپنے گاؤں لوٹنے کے متمنی ان مزدوروں کی گوہار سُنی جائے ۔
سرکار کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ لوگوں کو سفر کرنے سے روک کر وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے لیکن جب بھوک کی تکلیف وائرس کے درد پر غالب آئے تو ان غریبوں کو اپنے آبائی علاقوں کو لوٹنے کے خیال کے سوا دماغ میں اور کیا آسکتا ہے؟مرکزی وزارتِ داخلہ نے ریاستوں کو مہاجرین کے ان اجتماعی اسفار کو روکنے کیلئے کہا ہے یہاں تک کہ خود وزیرِ اعظم نے بھی لوگوں سے اپنی اپنی جگہ بنے رہنے کی اپیل کی ہے۔
مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی نے 18ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے ان مہاجر مزدوروں کا خیال رکھنے کی اپیل کی ہے جبکہ دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا ہے کہ یہ دستی مزدور بھی انکے یہاں کے شہری ہیں۔انہوں نے ان مزدوروں کیلئے 234پناہ گاہوںمیں 4 لاکھ مزدوروں کیلئے خوراک اور دیگر سہولیات کا انتظام کرایا ۔سنہ 2011کی مردم شماری کے مطابق دہلی میں 63 لاکھ بین الریاستی مہاجروں کا گھر ہے جن میں سے دو تہائی بہار، اُترپردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ اور اُتراکھنڈسے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اُن مہاجر مزدوروں کے اخراجات اُٹھائیں گے جو دوسری ریاستوں میں درماندہ ہوگئے ہیں لیکن بے روزگاری اور اسکے نتیجے میں بھکمری کی پریشانی لاکھوں مزدوروں کو بے چین کرکے انہیں آبائی گھروں کا راستہ دکھا رہی ہے۔
سنہ 2011کی مردم شماری میں ہی یہ اندازہ سامنے آیا تھا کہ روزگار کیلئے اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑنے والوں کی تعداد14کروڑ ہے جبکہ سنہ 2017کی اکونومک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ سال2011-16کے دوران 90لاکھ لوگوں نے بین الریاستی ہجرت کی۔البتہ وقتِ مشکل اپنے آبائی علاقوں اور گھروں کی حفاظت میں جانے کی انسانی فطرت ان مہاجر مزدوروں کو نہ رُکنے والے مسافر بننے پر آمادہ کرتی ہے۔لیکن انکا یہ جہنم جیسا سفر بیماری، بھوک اور مایوسی سے بھرا ہوا ہے۔
تلنگانہ سے راجستھان کیلئے اشیائے ضروریہ لیجارہے دو ٹرکوں میں چھُپے سینکڑوں مزدوروں کو مہاراشٹرا پولس نے گرفتار کر لیا ہے بہار سرکار کیلئے دیگر ریاستوں سے وطن لوٹے50 ہزار مزدوروں کا (کورونا وائرس کیلئے)ٹیسٹ کرانا ایک انتہائی مشکل کام ثابت ہورہا ہے۔حالانکہ کیرالہ نے ان مزدوروں کیلئے خاص پناہ گاہیں قائم کی ہیں لیکن ان میں سماجی فاصلہ اور صاف و صفائی رکھنا ممکن نہیں ہو رہا ہے۔بھارت کے غیر منظم شعبہ میں 42کروڑ کارکن ہیں اور انکا خیال رکھنا ملک کی سرکار کی ذمہ داری ہے۔انہیں سرکاری انتظام والی پناہ گاہوں میں لیجاکر خوراک اور بنیادی سہولیات بہم پہنچائی جانی چاہیئے۔کم از کم سرکار اتنا کرسکتی ہے کہ ان مزدوروں کی طبی جانچ کراکے انکے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرائے تاکہ یہ لوگ محفوظ اپنی منزلوں کو پہنچ سکیں۔