اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'احتجاج کے دوران کسی بھی طرح کی املاک کو نقصان پہنچانے والوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔'
جامعہ کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ' جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد شیخ الہند مولانا محمد علی جوہر نے رکھی تھی جو ایک عظیم مجاہد آزادی تھے اور انھوں نے اپنے شاگردوں کے ساتھ چار برس مالٹا کی جیل ملک کی آزادی کے لیے گزارے تھے اور آج سے 99 برس قبل سنہ 1920 میں ان کا انتقال ہوا تھا۔
یہ تاریخ بتانے کا مقصد انھوں نے یہ بتایا کہ ' ملک کی آزادی کے بعد سیکولر دستور کی حفاظت میں کے لیے جامعہ کی جماعت پہلی صف میں کھڑی ہے۔
مولانا ارشد مدنی کا مزید کہنا ہے کہ' ہم یہ دیکھ رہے تھے کہ کیا یہ صرف جامعہ اور علی گڑھ تک محدود رہ جاتا ہے اور اس میں ہندو مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگوں لڑکے لڑکیاں شریک ہوتے ہیں یا نہیں لیکن تیسرے دن اس احتجاج میں ہندو مسلم اور سب شریک ہونے لگے اور دیگر یونیورسٹیاں بھی اس میں شریک ہوئیں تب انھوں نے یہ بیان دیا تھا کہ اس تحریک کا اصل رخ یہی ہے۔
مولانا نے یہاں یہ کہا کہ ' یہ مسلۂ صرف ہندو یا مسلمان کا نہیں ہے بلکہ اصل مسلہ یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر کے ملک کو ایک سیکولر دستور دیا ہے اب یہ سیکولر دستور زندہ رہے گا یا نہیں زندہ رہے گا۔
مولانا ارشد مدنی نے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ آج 90 برس قبل ہمارے بزرگ چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا عیسائی ہوں انھوں نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی قربانیاں دی تھیں۔
انھوں نے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ' جس طرح آزادی کے وقت ملک اس بات کا محتاج تھا کہ ہندو اور مسلم مل کر اس ملک کے لیے قربانی دیں اسی طرح آج سیکولر دستور اس کا محتاج ہے کہ اس حفاظت کے لیے لوگ مذہب سے اوپر اٹھ کر آئیں اور جس چیز کی قربای دینا پڑے تو دی جائے۔
انھوں نے مسلم طبقہ سے گزارش کی ہے کہ' اگر آپ کو احتجاج کرنا ہے تو ہندو سکھ اور عیسائیوں کو ساتھ لے کر احتجاج کیا جائے اور دوسری بات یہ ملک کی املاک کو ہاتھ نہ لگائیں، احتجاج بالکل پرامن ہو چائے مظاہرین کو پولیس کی لاٹھیوں کا سامنا کرنا پڑے چاہے وہ آپ کو جیل میں ڈال دے یہ سب کچھ برداشت کیا جائے لیکن اپنی تحریک کو پر امن تحریک بنایا جائے۔