لاکھوں ٹڈیاں (فصلوں کو تباہ کرنے والے پر دار کیڑے) جُھنڈ کی شکل میں مسلسل بھارتی کسانوں کو پریشان کرتی رہیں گی۔ سرحد پار سے بھارتی خطے میں داخل ہونے والے ان نقصان دہ کیڑوں یا مکھیوں کی وجہ سے کھیتوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال پیدا ہوگیا ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر ان پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ فصلوں کو شدید نقصان پہنچائیں گی۔
مرکزی حکومت میں ایک اعلیٰ افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ڈرونز اور ٹریکٹرز کے ذریعے رات میں یعنی جب یہ ٹڈیاں آرام کررہی ہوتی ہیں، ان پر ادویات کا چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے۔
فصلوں اور پودوں کو کھانے والی یہ ٹڈیاں تقریباً ایک ماہ سے بھارت میں داخل ہورہی ہیں۔ ان کے ایک جُھنڈ میں دس سے پندرہ لاکھ تک ٹڈیاں شامل ہوتی ہیں۔
ابتدا میں یہ ٹڈیاں راجستھان کے مختلف قصبوں اور شہروں میں آئی تھیں اس کے بعد یہ مدھیہ پردیش پہنچیں۔ دونوں جگہوں پر ان کی وجہ سے فصلوں اور پودوں کو کافی نقصان پہنچا۔ ٹڈیوں نے گجرات اور پنجاب کے ساتھ ساتھ اتر پردیش کے کئی علاقوں میں بھی فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
زراعت اور کسانوں کی بہبود سے متعلق مرکزی وزارت میں لوکسٹ (ٹڈیوں) وارننگ آفس ( ایل ڈبلیو او) کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر کے ایل گرجار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'ان ٹڈیوں نے 30 اپریل سے بھارت میں داخل ہونا شروع کردیا ہے اور اب تک ان کے 23 جھنڈ بھارت میں داخل ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر گرجار نے بتایا کہ اب یہ ٹڈیاں راجستھان، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں بھی داخل ہوگئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ نقصاندہ پردار کیڑے شمال مشرقی بھارت کی فضاؤں میں جُھنڈ کی شکل میں جاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
ڈاکٹر گرجار نے مزید کہا کہ 'ٹڈیوں کا یہ جھنڈ جب رات کو کہیں ٹھہرتا ہے تو ہم ان کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچتے ہیں اور ان پر قابو پانے کے لیے آپریشن شروع کردیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم ان ٹڈیوں کی تعداد دن بہ دن کم کررہے ہیں۔ فی الوقت ٹڈیوں کو قابو میں کرنے کے یہ آپریشن راجستھان، مدھیہ پردیش، اُتر پردیش، پنجاب اور گجرات میں جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ٹڈیاں گجرات پہنچ گئی ہیں لیکن اس ریاست میں ان کے پھیلاؤ کو روک لیا گیا ہے۔ اب حکام نے راجستھان اور مدھیہ پردیش ریاستوں اور اُتر پردیش کے ایک ضلع میں ٹڈیوں پر قابو پانے کی کارروائی پر توجہ مرکوز کرلی ہے۔
افسران کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار ہفتوں میں ٹڈیوں کے 23 جھنڈ ملک میں داخل ہوئے ہیں۔ ایک جھنڈ میں تقریباً پندرہ لاکھ ٹڈیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح سے فی ہفتہ بھارت میں پانچ جُھنڈ داخل ہورہے ہیں۔
حکام نے ٹڈیوں پر قابو پانے کےلیے آپریشنز کے دوران ڈرونز کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اس آپریشن میں دونوں یعنی مرکزی اور ریاستوں کے متعلقہ حکام اپنی خدمات بہم پہنچا رہے ہیں۔
وزارت زراعت کے حکام کا کہنا ہے کہ 'لوکسٹ وارننگ آفس کے دو سو سے زائد افراد ٹڈیوں پر قابو پانے کے لیے آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ٹڈیوں کو قابو میں کرنے کے لیے ادویات کے چھڑکاؤ کے کام میں 47 ٹیمیں لگی ہوئی ہیں۔ ان ٹیموں کو مقامی حکام کا تعاون بھی حاصل ہے۔
ایک سینئر افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'ہم ٹڈیوں پر قابو پانے کے عمل میں ٹریکٹرز کا استعمال کرتے ہیں، جو انہیں مقامی حکام کی جانب سے پہنچائے جاتے ہیں۔
ادویات کے چھڑکاؤ کے لیے ٹریکٹرز کے علاوہ ڈرونز کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ڈرونز نہ صرف چھڑکاؤ کرنے کا کام کررہے بلکہ وہ ٹڈیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے کام بھی آتے ہیں۔
ڈاکٹر کے ایل گرجار کا کہنا ہے کہ فی الوقت اس کام کے لیے میں ہمارے پاس دو ڈرونز ہیں لیکن ہمیں مزید دو ڈرونز فراہم کئے جائیں گے۔
- ٹڈیوں پر قابو پانے کے لیے استعمال کی جانے والی دوا انسانوں کے لیے نقصان دہ نہیں:
ڈاکٹر کے ایل گرجار کا کہنا ہے کہ ٹڈیوں پر قابو پانے کے لیے استعمال کی جانے والی دوا انسانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 'اب تک راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بڑی تعداد میں ٹڈیوں پر قابو پا لیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس دوا کے استعمال کے نتیجے میں فصلوں کو نقصان پہنچنے کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تاہم انہوں باخبر کیا کہ جس وقت ٹڈیوں پر اس دوا کا چھڑکاؤ ہورہا ہوگا، اُس وقت آس پاس موجود لوگوں کو احتیاطی طور پر اپنے چہرے اور جسم کو ڈھانپ لینا چاہیے۔
- کسان کس طرح سے ٹڈیوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں:
ماہرین کا کہنا ہے کہ شور کی آواز سے ٹڈیوں کے جُھنڈ کی سمت تبدیل جاسکتی ہے اور یہ ایک آسان طریقہ ہے۔ مرکزی وزارت زراعت کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ کسانوں کو چاہیے کہ وہ شور مچائیں اور برتن یا کوئی بھی ایسی چیز بجائیں، جس سے شور یا تیز آواز پیدا ہو اور اس طرح سے ان ٹڈیوں کو دور بھگایا جاسکتا ہے۔
- کھڑی فصلوں کو نقصان نہیں پہنچا:
باوجود اس کے کہ بھارت میں ٹڈیوں داخل ہونے کا سلسلہ پچھلے ایک ماہ سے جاری ہے لیکن کے ایل گرجار جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ان ٹڈیوں کی وجہ سے کھڑی فصلوں کو اب تک کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'اب تک ہمیں کسی بھی جگہ سے فصلوں کو نقصان پہنچنے کی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے تاہم راجستھان کے ضلع سری گنگا نگر میں ٹڈیوں نے کپاس کی فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ کپاس کی محض پانچ فیصد فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
- جوار اور مکئی کی فصلوں کی کٹائی میں رکاوٹ آسکتی ہے:
وزارت زراعت کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ٹڈیوں کی موجودگی کی وجہ سے جوار اور مکئی کی فصلوں کی کٹائی میں رکاوٹ پیش آسکتی ہے تاہم مذکورہ افسر کا کہنا تھا کہ ہم ٹڈیوں کو ان فصلوں کے کٹائی کے وقت سے پہلے ہی قابو میں کرلیں گے۔
- دلی جیسے بڑے شہروں میں ٹڈیوں کا کوئی خطرہ نہیں ہے:
بھارت کے شمال مغربی شہروں اور قصبوں میں اور بالخصوص راجستھان کی ریاست میں ٹڈیوں کے جھنڈ کو دیکھا گیا اس کی وجہ سے دہلی میں ان موجودگی کا خطرہ محسوس کیا جانے لگا ہے کیونکہ قومی دارالحکومت راجستھان کے قریب ہی واقع ہے۔
تاہم ڈاکٹر کے ایل گرجار کا کہنا ہے کہ ٹڈیوں کا دہلی پہنچنے کا زیادہ احتمال نہیں ہے کیونکہ انہیں راجستھان سے مدھیہ پردیش کی جانب جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہوا کا رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے ان ٹڈیوں کے اڑنے کی سمت بھی بدل سکتی ہے۔ تاہم دہلی کو ان سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
- ٹڈیاں بنیادی طور پر افریقہ میں پیدا ہوئی ہیں:
یہ ٹڈیاں کروڑوں کی تعداد میں اس سال کے ابتدا میں مشرقی افریقہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ کینیا، ایتھوپیا، صومالیہ جیسے ممالک اور مشرقی افریقی ممالک میں ٹڈیوں کے پیدا ہوجانے اور ان کے وجہ سے نقصان پہنچنے کا مسئلہ صدیوں سے درپیش ہے۔ تاہم اس سال کروڑوں کی تعداد میں یہ ٹڈیاں مشرقی افریقہ سے ہجرت کرتے ہوئے وسطی ایشیا اور پھر ایران اور پاکستان کے راستے سے راجستھان میں داخل ہوگئیں۔
رواں برس جنوری میں ان ٹڈیوں کی وجہ سے مشرقی افریقہ میں لاکھوں کسانوں کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ بعدازاں اپریل میں ٹڈیوں کے یہ جُھنڈ بھارت پہنچ گئے۔
- یہ مسئلہ مزید کچھ وقت تک درپیش رہے گا:
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں کچھ وقت تک ٹڈیوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ پاکستان اور ایران میں ان کی موجودگی کے دوران ان کی نسل بڑھ گئی ہے۔
ایک افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'اگلے ایک ماہ یا وسط جولائی تک ٹڈیوں کا بھارت میں داخل ہوجانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
افسران کا کہنا ہے کہ ٹڈیوں کو بھارت میں داخل ہوجانے سے روکا نہیں جاسکتا ہے لیکن ایک بار جب یہ ہمارے ملک میں داخل ہوجائیں گی تو ہم ان پر قابو پالیں گے۔
ڈاکٹر کے ایل گرجار کا کہنا ہے کہ یہ ٹڈیاں زیادہ دیر تک یہاں نہیں رہیں گے کیونکہ انہیں بہت جلد کنٹرول کیا جائے گا۔