ETV Bharat / bharat

'قومیت کے اولین علمبردار علامی شبلی نعمانی'

شبلی بیک وقت شاعر، ادیب،عالم، مفکر اور سوانح نگار سب کچھ تھے۔ شبلی کے اندر ادبی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ۔ سرسید احمد خاں کی صحبت نے ان صلاحیتوں کو مزید نکھارا اور ایک نئی راہ دکھائی۔

'قومیت کے اولین علمبردار علامی شبلی نعمانی'
author img

By

Published : Nov 18, 2019, 5:09 PM IST

علامہ شبلی نعمانی ایک باکمال شخصیت کے مالک تھے۔ علامہ شبلی نے تاریخ اور فلسفہ جیسے خشک موضوعات کو بھی مزیدار اور دلچسپ بناتے ہوئے اپنی فنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔

'قومیت کے اولین علمبردار علامی شبلی نعمانی'

علامہ شبلی نعمانی کی چند مشہور تصانیف کے نام کچھ اس طرح ہیں:
شعرالعجم (5 جلدیں)
موازنہ انیس و دبیر
الفاروق
المامون
سیرت النعمان
الغزالی
سوانح مولانا روم
علم الکلام
الکلام
الجزیہ
فلسفہ اسلام
سفر نامہ روم و شام و مصر
حیات خسرو
سیرت النبیؐ
دیوان شبلی وغیرہ۔

علامہ شبلیؔ اپنی ذات میں ایک مکمل ادبی انجمن تھے۔ انہوں نے 57 برس کی عمر میں تن تنہا ہی ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کے ادبی کارناموں سے متاثر ہو کر سلطان ترکی نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں 'تمغہ مجیدی' کے پروقار اعزاز سے نوازا۔

حکومت برطانیہ نے انہیں 'شمس العلماء'کے خطاب سے سرفراز کیا ۔

جنگ بلقان میں جب ترکوں پر مصیبت آپڑی تو مولانا شبلی کے اندر کا انقلابی شاعر جاگ اٹھا اور انہوں نے ایک مرصع نظم لکھی جو بے حد مشہور ہوئی۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک
چراغ تشنہ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک
یہ جوش انگیزی طوفان بیداد و بلانا کے
یہ لطف اندوزی ہنگامہ آہ و فغاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانا ہے
ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تک
کہاں تک لوگے ہم سے انتقام فتح ایوبی
دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب

علامہ شبلیؔ ہرفن مولیٰ تھے انہوں نے اردو ادب کے تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور اپنے مشاہدے اور تجربے کی مدد سے ادب عالیہ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی تصانیف کی طرح ان کے مقالات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔

علامہ شبلیؔ نعمانی نے علمی، ادبی، تنقیدی، تاریخی، تعلیمی، فلسفیانہ اور مذہبی مقالات لکھے جو اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ان کے تمام مقالات کو ان کے شاگرد خاص مولانا سید سلیمان ندوی نے 8 جلدوں میں موضوع کے لحاظ سے ترتیب دے کر شائع کیا۔

علامہ شبلیؔ نعمانی علوم کی تفریق کے قائل نہیں تھے، اسی لیے وہ دینی مدارس میں عصری علوم کی تعلیم کے بھی پرزور حامی تھے۔

علامہ شبلی آخری عمر میں ہرطرف سے یکسوئی حاصل کرکے سیرت النبیؐ کی تکمیل میں لگ گئے۔ مگر عمر نے وفا نہ کی اور 1914 ء میں ان کی وفات ہوگئی ۔ وہ سیرت النبیؐ کی صرف دو جلدیں ہی مکمل کرسکے تھے بعد میں سید سلیمان ندوی نے اس کتاب کو مکمل کیا۔

مولانا شبلی اور مولانا حالی کی وفات کا سال ایک ہی ہے۔ آج علامہ شبلیؔ کو بھی ہم سے جدا ہوئے پورے ایک سو پانچ برس ہوچکے ہیں۔ آج ملک بھر میں مولانا شبلی کے نام پر بھی مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں سمینار، سپوزیم اور مباحثے منعقد کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: خصوصی رپورٹ: بِرِکس کیا ہے؟ آسان انداز میں سمجھئیے

شبلی بیک وقت شاعر، ادیب،عالم، مفکر اور سوانح نگار سب کچھ تھے ۔ شبلی کے اندر ادبی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ۔ سرسید احمد خاں کی صحبت نے ان صلاحیتوں کو مزید نکھارا اور ایک نئی راہ دکھائی۔

علامہ شبلی نعمانی ایک باکمال شخصیت کے مالک تھے۔ علامہ شبلی نے تاریخ اور فلسفہ جیسے خشک موضوعات کو بھی مزیدار اور دلچسپ بناتے ہوئے اپنی فنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔

'قومیت کے اولین علمبردار علامی شبلی نعمانی'

علامہ شبلی نعمانی کی چند مشہور تصانیف کے نام کچھ اس طرح ہیں:
شعرالعجم (5 جلدیں)
موازنہ انیس و دبیر
الفاروق
المامون
سیرت النعمان
الغزالی
سوانح مولانا روم
علم الکلام
الکلام
الجزیہ
فلسفہ اسلام
سفر نامہ روم و شام و مصر
حیات خسرو
سیرت النبیؐ
دیوان شبلی وغیرہ۔

علامہ شبلیؔ اپنی ذات میں ایک مکمل ادبی انجمن تھے۔ انہوں نے 57 برس کی عمر میں تن تنہا ہی ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کے ادبی کارناموں سے متاثر ہو کر سلطان ترکی نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں 'تمغہ مجیدی' کے پروقار اعزاز سے نوازا۔

حکومت برطانیہ نے انہیں 'شمس العلماء'کے خطاب سے سرفراز کیا ۔

جنگ بلقان میں جب ترکوں پر مصیبت آپڑی تو مولانا شبلی کے اندر کا انقلابی شاعر جاگ اٹھا اور انہوں نے ایک مرصع نظم لکھی جو بے حد مشہور ہوئی۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک
چراغ تشنہ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک
یہ جوش انگیزی طوفان بیداد و بلانا کے
یہ لطف اندوزی ہنگامہ آہ و فغاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانا ہے
ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تک
کہاں تک لوگے ہم سے انتقام فتح ایوبی
دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب

علامہ شبلیؔ ہرفن مولیٰ تھے انہوں نے اردو ادب کے تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور اپنے مشاہدے اور تجربے کی مدد سے ادب عالیہ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی تصانیف کی طرح ان کے مقالات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔

علامہ شبلیؔ نعمانی نے علمی، ادبی، تنقیدی، تاریخی، تعلیمی، فلسفیانہ اور مذہبی مقالات لکھے جو اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ان کے تمام مقالات کو ان کے شاگرد خاص مولانا سید سلیمان ندوی نے 8 جلدوں میں موضوع کے لحاظ سے ترتیب دے کر شائع کیا۔

علامہ شبلیؔ نعمانی علوم کی تفریق کے قائل نہیں تھے، اسی لیے وہ دینی مدارس میں عصری علوم کی تعلیم کے بھی پرزور حامی تھے۔

علامہ شبلی آخری عمر میں ہرطرف سے یکسوئی حاصل کرکے سیرت النبیؐ کی تکمیل میں لگ گئے۔ مگر عمر نے وفا نہ کی اور 1914 ء میں ان کی وفات ہوگئی ۔ وہ سیرت النبیؐ کی صرف دو جلدیں ہی مکمل کرسکے تھے بعد میں سید سلیمان ندوی نے اس کتاب کو مکمل کیا۔

مولانا شبلی اور مولانا حالی کی وفات کا سال ایک ہی ہے۔ آج علامہ شبلیؔ کو بھی ہم سے جدا ہوئے پورے ایک سو پانچ برس ہوچکے ہیں۔ آج ملک بھر میں مولانا شبلی کے نام پر بھی مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں سمینار، سپوزیم اور مباحثے منعقد کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: خصوصی رپورٹ: بِرِکس کیا ہے؟ آسان انداز میں سمجھئیے

شبلی بیک وقت شاعر، ادیب،عالم، مفکر اور سوانح نگار سب کچھ تھے ۔ شبلی کے اندر ادبی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ۔ سرسید احمد خاں کی صحبت نے ان صلاحیتوں کو مزید نکھارا اور ایک نئی راہ دکھائی۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.