ETV Bharat / bharat

کسانوں کا ناکافی معاوضہ سے بیمہ اسکیم پر سے اعتماد ختم - کسانوں کی خودکشی

سال1995-2015 کے دوران تین لاکھ دس ہزار کسانوں نے قرضے سے تنگ آکر خود کشی کی ہے۔حالانکہ حکمرانوں کی جانب سے کسانوں کا مسئلہ حل کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے جانے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن زمینی سطح پر کسانوں کے حالاتِ زندگی کسی طرح بہتر نہیں ہوئے ہیں۔زرعی بحران نے ملک کی کئی ریاستوں میں کسانوں کو انتہائی مفلس بنادیا ہے۔

کسانوں کا ناکافی معاوضہ سے بیمہ اسکیم پر سے اعتماد ختم
کسانوں کا ناکافی معاوضہ سے بیمہ اسکیم پر سے اعتماد ختم
author img

By

Published : Feb 24, 2020, 5:28 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 10:22 AM IST

دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بھارت کے زرعی شعبہ کو بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔آفاتِ سماوی کا نزول نہ صرف یہاں کے کسانوں کی امیدوں پر پانی پھیرتا ہے بلکہ اس سے ملک کی معشیت بھی بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔قومی سطح پر کئے گئے ایک مطالعہ (نیشنل سیمپل سروے)میں ظاہر ہوا ہے کہ ملک کے 50فیصد سے زیادہ کسان مقروض ہیں۔

اس سے قبل ہوئی سیس اسٹڈی میں بتایا گیا تھا کہ آندھراپردیش میں 93 فیصد کسان قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔اگلے پانچ برسوں میں کسانوں کی آمدن کو دوگنا کرنے کا مرکزی حکوموت کا مقرر کردہ نشانہ حقیقت سے بعید معلوم ہوتا ہے۔

جو کسان اپنی فصلوں کو ہوئے نقصان کی وجہ سے قرضے کی جال میں گرتے ہیں وہ باالآخرخود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔سال1995-2015 کے دوران تین لاکھ دس ہزار کسانوں نے قرضے سے تنگ آکر خود کشی کی ہے۔حالانکہ حکمرانوں کی جانب سے کسانوں کا مسئلہ حل کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے جانے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن زمینی سطح پر کسانوں کے حالاتِ زندگی کسی طرح بہتر نہیں ہوئے ہیں۔زرعی بحران نے ملک کی کئی ریاستوں میں کسانوں کو انتہائی مفلس بنادیا ہے۔

وزیرِ اعظم مودی نے چار سال قبل جنوری 2016 میں اُسوقت کی فصل بیمہ اسکیم کی جگہ 'پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا' کے نام سے ایک نئی اسکیم لائی تھی۔چونکہ سابق حکومتوں کی بیمہ اسکیموں سے کسانوں کا کچھ بھلا نہیں ہوپایا تھا۔کیونکہ اُن اسکیموں کیلئے بھاری قسطیں بھرنا پڑتی تھیں جبکہ معاوضہ محدود ملتا تھااور قسطوں میں حکومت کا حصہ بھی کم تھا، لہٰذا اس نئی اسکیم کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔

یہ نئی اسکیم پوری طرح نئی بھی ہے اور دلچسپ بھی ہے ۔اسکے تحت نقصان کا جائزہ لینے اورکسانوں کیلئے فوری معاوضہ کی ادائیگی کو یقینی بنانے کیلئے 'ریموٹ سینسنگ اسمارٹ فون' اور ' ڈرون' جیسے آلات استعمال کئے جائیں گے۔یہ اسکیم کسانوں کی آمدن کو اُتار چڑھاؤ سے تحفظ دینے میں مددگار ہے اور یہ کسانوں کو کھیت چھوڑ کر دوسرے شعبوں میں روزگارکے مواقع کی تلاش کرنے کی مجبوری سے بھی بچاتی ہے۔

غیرمؤثر انتظامیہ

اس اسکیم کے تحت خریف سال 2019 تک کسانوں کی جانب سے درخواست دیے جانے کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے۔سال2016-17میں پانچ کروڑ اسی لاکھ، سال2017-18میں پانچ کروڑ پچیس لاکھ اور سال 2018-19 میں پانچ کروڑ64لاکھ کسانوں نے اس اسکیم میں شمولیت اختیار کی ہے۔

مجموعی طور پر ان تین سال کیلئے باالترتیب22 ہزار 8 کروڑ، 25 ہزار481 کروڑ اور29 ہزار 35 کروڑ روپے کا پریمیم جمع ہوگیا۔یہ بات واضح ہے کہ اگرچہ اسکیم میں شامل کسانوں کی تعداد گھٹ گئی ہے لیکن پریمیم میں بڑھوتری ہوئی ہے کہ کسانوں کا حصہ باالترتیب 4 ہزار 221کروڑ، 4,431کروڑ اور4,889کروڑ روپے رہا ہے۔

اندازہ ہے کہ خریف سال 2019-20 کے دوران تین کروڑ ستر لاکھ لوگوں نے اسکیم میں اپنا اندراج کرایا ہے اور ان میں سے بیشتر بینکوں کے مقروض نہیں ہیں۔البتہ بیمہ کمپنیوں کی جانب سے کسانوں کو ادا کیا جاچکا معاوضہ اُن سے وصول کردہ پریمیم کے مقابلے میں یکسر مختلف ہے۔

اس فرق کو بیمہ کمپنیوں کے منافع کے ساتھ منسوب کیا گیا، جو پہلے سال 5,391کروڑ، دوسرے سال 3,776کروڑ اور تیسرے سال 14 ہزار 789 کروڑ روپے رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ بیمہ کمپنیوں نے اس اسکیم کا بھاری فائدہ اُٹھایا ہے، نتیجہ یہ کہ کسان انجمنیں یہ الزام لگاتی ہیں کہ مذکورہ اسکیم فقط بیمہ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہی بنائی گئی ہے۔

یہ بیمہ اسکیم ایک انتظامی خامی بن چکی ہے۔چونکہ وزارتِ زراعت پوری توجہ دینے میں ناکام ہوئی ہے بیمہ کمپنیوں نے سالانہ اربوں روپے کی ادائیگی کو نظرانداز کردیا۔

اس اسکیم کا غیر مؤثر نفاذ اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ دسمبر2018میں ختم ہوئے خریف سیزن کے دوران بیمہ کمپنیوں پر کسانوں کے پانچ ہزار کروڑ روپے واجب تھے۔اُس سال خریف سیزن کے دوران جہاں کسانوں کو 14 ہزار 813کروڑ روپے کا معاوضہ واجب تھا وہاں جولائی 2019تک فقط 9,799کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی تھی۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 45اضلاع کو ابھی تک بیمہ کے 50فیصد پیسے دینا باقی ہے حالانکہ اسکیم کے تحت کسانوں کی رقومات لازمی طور پر خریف یا ربیع سیزن کے آخر کے ختم ہونے کے دو ماہ کے اندر اندر ادا ہونی چاہیئے۔

سال2018کا خریف سیزن دسمبر کے ساتھ ختم ہوگیا مگر بیمہ کمپنیوں کے بیچ عدمِ تعاون کی وجہ سے اگلے سال آخر تک بھی کسانوں کو ادائیگی نہیں کی جاسکی تھی۔

دوسری جانب کسانوں کی شکایت ہے کہ بعض فصلوں کیلئے بیمہ کا پریمیم بہت زیادہ ہے۔ایسے میں مرکزی حکومت نے خریف2020کے آخر تک ان فصلوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ریاستی حکومت کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔

ادھر بیمہ کمپنیاں قلیل المدتی فیصلوں کے حوالے سے مشکلات سے دوچار لگ رہی ہیں۔ایسے وقت پر جب مراٹھواڈاعلاقہ کے کسانوں نے سال 2018-19میں خود کشی کی کواپریٹیو ایکٹ نے صاف کیا ہے کہ بیمہ کمپنیوں نے اس اسکیم سے 1,237کروڑ روپے کا منافع حاصل کیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیمہ کمپنیوں نے مجموعی طور پر فی خود کشی ایک کروڑ روپے کا فائدہ حاصل کیا ہے۔بیمہ کمپنیوں میں معاوضے کا حساب لگانے کی موزون مہارت کا فقدان مایوس کن ہے۔

مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ مذکورہ اسکیم کے تحت فصلوں کے نقصان کا اندازہ لگانے میں کئی مشکلات ہیں جسکے نتیجے میں معاوضے کی بروقت ادائیگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔اس اسکیم کے تحت فصلوں کی پیداوار کا تخمینہ فصلوں کی کٹائی کے تجربات سے لگایا جاتا ہے جبکہ ملک میں قلیل وقت کے اندر لاکھوں تجربات کرنا بڑا مشکل کام ہے۔

حکام کے مطابق اس مقصد کیلئے بنائی گئی سافٹ وئیر اپلیکیشن 15فیصد کارکردگی بھی نہیں دکھا پارہی ہے۔مرکزی حکومت کسانوں کی ادائیگی میں ہونے والی تاخیر کیلئے ریاستی حکومت پر غفلت شعاری کا الزام لگاتی ہے۔

دوسری جانب کسان اس بات پر غصے میں ہیں کہ انکے کھاتوں سے بیمہ کی قسطیں کاٹی جارہی ہیں، یہاں تک کہ بینکوں کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کے دوران بھی کاٹی جاتی رہی ہیں۔یہ مسئلہ سب سے زیادہ مہاراشٹرا،آندھراپردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش اور دیگر دس ریاستوں کے کسانوں کو درپیش ہے۔

معاوضے کا حساب لگانے والا کوئی نہیں ہے!

فصل بیمہ یوجنا میں خریف فصل کا دو فیصد، ربیع فصل کا ڈیڑھ فیصد اور کاروباری فصل کا پانچ فیصد پریمیم کے بطور مقرر ہے جبکہ گذشتہ سات سال کی اصل اور اوسط پیداوار کا فرق فصل کا نقصان مانا جاتا ہے۔

بیمہ کنندہ کسانوں کے دعوؤں کو نمٹاتے وقت سات سال کے دوران کاٹی گئی،قدرتی آفات قرار پاچکے دو سالوں کو چھوڑ کر، اوسط فصل کو کسان کی مرضی(خسارہ کی سطح) کے خسارہ فیصد سے ضرب دیا جاتا ہے۔یہ سطح ستر اور نوے فیصد کے درمیان ہے اور پریمیم کی قسط بھی مطابقا اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔

مثال کے بطور ایک کسان نے 60کوئینٹل کی اوسط پیداوار کا بیمہ کرایا ہے جبکہ اصل پیداوار 45کوئینٹل ہی ہے۔اگر کسان نے فصل کے نقصان پر 25فیصد معاوضے کے حساب سے 60,000روپے کا بیمہ کرایا ہے تو معاوضے کی رقم 15,000روپے بنتی ہے۔اس اسکیم کے تحت کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں کسان کو پہنچنے والے سارے نقصان کامعاوضہ دیا جاتا ہے۔ایک فوری راحت کے بطور متاثرہ کسان کو نیشنل ڈزاسٹر فنڈ یا مرکزی وزارتِ داخلہ کے ڈزاسٹر فنڈ میں سے معاوضے کا ایک تہائی دیا جاتا ہے۔

کسان انجمنوں کا الزام ہے کہ سبھی نجی بیمہ کمپنیاں ہاتھ ملا کر پریمیم کی رقم بڑھاکر فائدہ اُٹھاتی ہیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تقریبا 50فیصد معاوضہ صرف ملک کے40اضلاع میں ہی کسانوں کو دیا گیا ہے اور یہ سبھی اضلاع اکثر قدرتی آفات کا شکار ہونے کے امکان سے دوچار رہنے والے ہیں اور یہاں بنیادی طور پر خشک سالی کا خطرہ رہتا ہے۔

مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے کسانوں کی بوئی ہوئی فصل، جیسے پیاز، سویا بین، انار وغیرہ کو بھاری پیمانے پر نقصان پہنچا۔

جن علاقوں میں غیر معمولی بارشوں یا خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا آرہا ہے کئی بیمہ کمپنیاں ان علاقوں میں مذکورہ بیمہ اسکیم سے ہاتھ کھینچنے کی شدید کوششیں کررہی ہیں کیونکہ انکے لیے یہاں کے موسمی حالات مفید نہیں ہیں۔چناچہ اس اسکیم کے موثر رہنے کیلئے سرکاروں کو کسانوں سے لئے جانے والے پریمیم کا کچھ حصہ برداشت کرنا ہوگا۔

پریمیم کی رقم کیلئے ایک علیٰحدہ فنڈ قائم کئے جانے کے امکانات پر غور کیا جانا چاہیئے تاکہ پریمیم اسی فنڈ کے ذریعہ ادا کیا جاتا رہے، جو ابھی تک متعلقہ بیمہ کمپنیوں کو دی جاتی ہے۔اس سے نجی کمپنیوں کو پہنچنے والا ناجائز فائدہ رُک جائے گا اور کسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچنا یقینی بن جائے گا۔

نجی کمپنیاں اپنی مرضی کے مطابق پریمیم مقرر کرتی ہیں جو کہ سبھی کیلئے ایک بوجھ بنتا ہے لہٰذا نجی بیمہ کمپنیوں کو قابو میں رکھنے کیلئے پریمیم کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کمپنیاں کم پریمیم طلب کریں۔

یہ بات افسوس کی ہے کہ اسکیم میں کسانوں کوفرضی بیجوں سے پہنچنے والے نقصان یا ہاتھی،جنگلی سور اور بھالوؤں جیسے وحشیوں کی وجہ سے تباہ ہونے والے فصلوں کو قابلِ معاوضہ نقصان کے بطور شامل نہیں کیا گیا ہے۔

(تیلگو مصنف پروفیسر پی وینکٹیسور، آندھرا یونیورسٹی شعبہ کامرس)

دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بھارت کے زرعی شعبہ کو بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔آفاتِ سماوی کا نزول نہ صرف یہاں کے کسانوں کی امیدوں پر پانی پھیرتا ہے بلکہ اس سے ملک کی معشیت بھی بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔قومی سطح پر کئے گئے ایک مطالعہ (نیشنل سیمپل سروے)میں ظاہر ہوا ہے کہ ملک کے 50فیصد سے زیادہ کسان مقروض ہیں۔

اس سے قبل ہوئی سیس اسٹڈی میں بتایا گیا تھا کہ آندھراپردیش میں 93 فیصد کسان قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔اگلے پانچ برسوں میں کسانوں کی آمدن کو دوگنا کرنے کا مرکزی حکوموت کا مقرر کردہ نشانہ حقیقت سے بعید معلوم ہوتا ہے۔

جو کسان اپنی فصلوں کو ہوئے نقصان کی وجہ سے قرضے کی جال میں گرتے ہیں وہ باالآخرخود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔سال1995-2015 کے دوران تین لاکھ دس ہزار کسانوں نے قرضے سے تنگ آکر خود کشی کی ہے۔حالانکہ حکمرانوں کی جانب سے کسانوں کا مسئلہ حل کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے جانے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن زمینی سطح پر کسانوں کے حالاتِ زندگی کسی طرح بہتر نہیں ہوئے ہیں۔زرعی بحران نے ملک کی کئی ریاستوں میں کسانوں کو انتہائی مفلس بنادیا ہے۔

وزیرِ اعظم مودی نے چار سال قبل جنوری 2016 میں اُسوقت کی فصل بیمہ اسکیم کی جگہ 'پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا' کے نام سے ایک نئی اسکیم لائی تھی۔چونکہ سابق حکومتوں کی بیمہ اسکیموں سے کسانوں کا کچھ بھلا نہیں ہوپایا تھا۔کیونکہ اُن اسکیموں کیلئے بھاری قسطیں بھرنا پڑتی تھیں جبکہ معاوضہ محدود ملتا تھااور قسطوں میں حکومت کا حصہ بھی کم تھا، لہٰذا اس نئی اسکیم کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔

یہ نئی اسکیم پوری طرح نئی بھی ہے اور دلچسپ بھی ہے ۔اسکے تحت نقصان کا جائزہ لینے اورکسانوں کیلئے فوری معاوضہ کی ادائیگی کو یقینی بنانے کیلئے 'ریموٹ سینسنگ اسمارٹ فون' اور ' ڈرون' جیسے آلات استعمال کئے جائیں گے۔یہ اسکیم کسانوں کی آمدن کو اُتار چڑھاؤ سے تحفظ دینے میں مددگار ہے اور یہ کسانوں کو کھیت چھوڑ کر دوسرے شعبوں میں روزگارکے مواقع کی تلاش کرنے کی مجبوری سے بھی بچاتی ہے۔

غیرمؤثر انتظامیہ

اس اسکیم کے تحت خریف سال 2019 تک کسانوں کی جانب سے درخواست دیے جانے کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے۔سال2016-17میں پانچ کروڑ اسی لاکھ، سال2017-18میں پانچ کروڑ پچیس لاکھ اور سال 2018-19 میں پانچ کروڑ64لاکھ کسانوں نے اس اسکیم میں شمولیت اختیار کی ہے۔

مجموعی طور پر ان تین سال کیلئے باالترتیب22 ہزار 8 کروڑ، 25 ہزار481 کروڑ اور29 ہزار 35 کروڑ روپے کا پریمیم جمع ہوگیا۔یہ بات واضح ہے کہ اگرچہ اسکیم میں شامل کسانوں کی تعداد گھٹ گئی ہے لیکن پریمیم میں بڑھوتری ہوئی ہے کہ کسانوں کا حصہ باالترتیب 4 ہزار 221کروڑ، 4,431کروڑ اور4,889کروڑ روپے رہا ہے۔

اندازہ ہے کہ خریف سال 2019-20 کے دوران تین کروڑ ستر لاکھ لوگوں نے اسکیم میں اپنا اندراج کرایا ہے اور ان میں سے بیشتر بینکوں کے مقروض نہیں ہیں۔البتہ بیمہ کمپنیوں کی جانب سے کسانوں کو ادا کیا جاچکا معاوضہ اُن سے وصول کردہ پریمیم کے مقابلے میں یکسر مختلف ہے۔

اس فرق کو بیمہ کمپنیوں کے منافع کے ساتھ منسوب کیا گیا، جو پہلے سال 5,391کروڑ، دوسرے سال 3,776کروڑ اور تیسرے سال 14 ہزار 789 کروڑ روپے رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ بیمہ کمپنیوں نے اس اسکیم کا بھاری فائدہ اُٹھایا ہے، نتیجہ یہ کہ کسان انجمنیں یہ الزام لگاتی ہیں کہ مذکورہ اسکیم فقط بیمہ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہی بنائی گئی ہے۔

یہ بیمہ اسکیم ایک انتظامی خامی بن چکی ہے۔چونکہ وزارتِ زراعت پوری توجہ دینے میں ناکام ہوئی ہے بیمہ کمپنیوں نے سالانہ اربوں روپے کی ادائیگی کو نظرانداز کردیا۔

اس اسکیم کا غیر مؤثر نفاذ اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ دسمبر2018میں ختم ہوئے خریف سیزن کے دوران بیمہ کمپنیوں پر کسانوں کے پانچ ہزار کروڑ روپے واجب تھے۔اُس سال خریف سیزن کے دوران جہاں کسانوں کو 14 ہزار 813کروڑ روپے کا معاوضہ واجب تھا وہاں جولائی 2019تک فقط 9,799کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی تھی۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 45اضلاع کو ابھی تک بیمہ کے 50فیصد پیسے دینا باقی ہے حالانکہ اسکیم کے تحت کسانوں کی رقومات لازمی طور پر خریف یا ربیع سیزن کے آخر کے ختم ہونے کے دو ماہ کے اندر اندر ادا ہونی چاہیئے۔

سال2018کا خریف سیزن دسمبر کے ساتھ ختم ہوگیا مگر بیمہ کمپنیوں کے بیچ عدمِ تعاون کی وجہ سے اگلے سال آخر تک بھی کسانوں کو ادائیگی نہیں کی جاسکی تھی۔

دوسری جانب کسانوں کی شکایت ہے کہ بعض فصلوں کیلئے بیمہ کا پریمیم بہت زیادہ ہے۔ایسے میں مرکزی حکومت نے خریف2020کے آخر تک ان فصلوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ریاستی حکومت کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔

ادھر بیمہ کمپنیاں قلیل المدتی فیصلوں کے حوالے سے مشکلات سے دوچار لگ رہی ہیں۔ایسے وقت پر جب مراٹھواڈاعلاقہ کے کسانوں نے سال 2018-19میں خود کشی کی کواپریٹیو ایکٹ نے صاف کیا ہے کہ بیمہ کمپنیوں نے اس اسکیم سے 1,237کروڑ روپے کا منافع حاصل کیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیمہ کمپنیوں نے مجموعی طور پر فی خود کشی ایک کروڑ روپے کا فائدہ حاصل کیا ہے۔بیمہ کمپنیوں میں معاوضے کا حساب لگانے کی موزون مہارت کا فقدان مایوس کن ہے۔

مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ مذکورہ اسکیم کے تحت فصلوں کے نقصان کا اندازہ لگانے میں کئی مشکلات ہیں جسکے نتیجے میں معاوضے کی بروقت ادائیگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔اس اسکیم کے تحت فصلوں کی پیداوار کا تخمینہ فصلوں کی کٹائی کے تجربات سے لگایا جاتا ہے جبکہ ملک میں قلیل وقت کے اندر لاکھوں تجربات کرنا بڑا مشکل کام ہے۔

حکام کے مطابق اس مقصد کیلئے بنائی گئی سافٹ وئیر اپلیکیشن 15فیصد کارکردگی بھی نہیں دکھا پارہی ہے۔مرکزی حکومت کسانوں کی ادائیگی میں ہونے والی تاخیر کیلئے ریاستی حکومت پر غفلت شعاری کا الزام لگاتی ہے۔

دوسری جانب کسان اس بات پر غصے میں ہیں کہ انکے کھاتوں سے بیمہ کی قسطیں کاٹی جارہی ہیں، یہاں تک کہ بینکوں کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کے دوران بھی کاٹی جاتی رہی ہیں۔یہ مسئلہ سب سے زیادہ مہاراشٹرا،آندھراپردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش اور دیگر دس ریاستوں کے کسانوں کو درپیش ہے۔

معاوضے کا حساب لگانے والا کوئی نہیں ہے!

فصل بیمہ یوجنا میں خریف فصل کا دو فیصد، ربیع فصل کا ڈیڑھ فیصد اور کاروباری فصل کا پانچ فیصد پریمیم کے بطور مقرر ہے جبکہ گذشتہ سات سال کی اصل اور اوسط پیداوار کا فرق فصل کا نقصان مانا جاتا ہے۔

بیمہ کنندہ کسانوں کے دعوؤں کو نمٹاتے وقت سات سال کے دوران کاٹی گئی،قدرتی آفات قرار پاچکے دو سالوں کو چھوڑ کر، اوسط فصل کو کسان کی مرضی(خسارہ کی سطح) کے خسارہ فیصد سے ضرب دیا جاتا ہے۔یہ سطح ستر اور نوے فیصد کے درمیان ہے اور پریمیم کی قسط بھی مطابقا اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔

مثال کے بطور ایک کسان نے 60کوئینٹل کی اوسط پیداوار کا بیمہ کرایا ہے جبکہ اصل پیداوار 45کوئینٹل ہی ہے۔اگر کسان نے فصل کے نقصان پر 25فیصد معاوضے کے حساب سے 60,000روپے کا بیمہ کرایا ہے تو معاوضے کی رقم 15,000روپے بنتی ہے۔اس اسکیم کے تحت کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں کسان کو پہنچنے والے سارے نقصان کامعاوضہ دیا جاتا ہے۔ایک فوری راحت کے بطور متاثرہ کسان کو نیشنل ڈزاسٹر فنڈ یا مرکزی وزارتِ داخلہ کے ڈزاسٹر فنڈ میں سے معاوضے کا ایک تہائی دیا جاتا ہے۔

کسان انجمنوں کا الزام ہے کہ سبھی نجی بیمہ کمپنیاں ہاتھ ملا کر پریمیم کی رقم بڑھاکر فائدہ اُٹھاتی ہیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تقریبا 50فیصد معاوضہ صرف ملک کے40اضلاع میں ہی کسانوں کو دیا گیا ہے اور یہ سبھی اضلاع اکثر قدرتی آفات کا شکار ہونے کے امکان سے دوچار رہنے والے ہیں اور یہاں بنیادی طور پر خشک سالی کا خطرہ رہتا ہے۔

مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے کسانوں کی بوئی ہوئی فصل، جیسے پیاز، سویا بین، انار وغیرہ کو بھاری پیمانے پر نقصان پہنچا۔

جن علاقوں میں غیر معمولی بارشوں یا خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا آرہا ہے کئی بیمہ کمپنیاں ان علاقوں میں مذکورہ بیمہ اسکیم سے ہاتھ کھینچنے کی شدید کوششیں کررہی ہیں کیونکہ انکے لیے یہاں کے موسمی حالات مفید نہیں ہیں۔چناچہ اس اسکیم کے موثر رہنے کیلئے سرکاروں کو کسانوں سے لئے جانے والے پریمیم کا کچھ حصہ برداشت کرنا ہوگا۔

پریمیم کی رقم کیلئے ایک علیٰحدہ فنڈ قائم کئے جانے کے امکانات پر غور کیا جانا چاہیئے تاکہ پریمیم اسی فنڈ کے ذریعہ ادا کیا جاتا رہے، جو ابھی تک متعلقہ بیمہ کمپنیوں کو دی جاتی ہے۔اس سے نجی کمپنیوں کو پہنچنے والا ناجائز فائدہ رُک جائے گا اور کسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچنا یقینی بن جائے گا۔

نجی کمپنیاں اپنی مرضی کے مطابق پریمیم مقرر کرتی ہیں جو کہ سبھی کیلئے ایک بوجھ بنتا ہے لہٰذا نجی بیمہ کمپنیوں کو قابو میں رکھنے کیلئے پریمیم کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کمپنیاں کم پریمیم طلب کریں۔

یہ بات افسوس کی ہے کہ اسکیم میں کسانوں کوفرضی بیجوں سے پہنچنے والے نقصان یا ہاتھی،جنگلی سور اور بھالوؤں جیسے وحشیوں کی وجہ سے تباہ ہونے والے فصلوں کو قابلِ معاوضہ نقصان کے بطور شامل نہیں کیا گیا ہے۔

(تیلگو مصنف پروفیسر پی وینکٹیسور، آندھرا یونیورسٹی شعبہ کامرس)

Last Updated : Mar 2, 2020, 10:22 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.