ETV Bharat / bharat

زرعی شعبے کا اگلا مرحلہ ،مصنوعی ذہانت پر مبنی زرعی نظام

author img

By

Published : Jan 20, 2020, 7:56 PM IST

Updated : Feb 17, 2020, 6:39 PM IST

انڈین چیمبر آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم کے خان نے بتایا کہ اگر بھارت کے زراعتی شعبے میں اے آئی جیسے جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے تو فصلوں کو معیار بین الاقوامی سطح کا ہوسکتا ہے۔

زرعی شعبے کا اگلا مرحلہ ،مصنوعی ذہانت پر مبنی زرعی نظام
زرعی شعبے کا اگلا مرحلہ ،مصنوعی ذہانت پر مبنی زرعی نظام

انسان کی تاریخ میں زراعت کا پیشہ دنیا کا سب سے قدیم ترین پیشہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ زراعت کے طریقہ کار میں جدت آتی رہی ہے۔ ذراعتی شعبے میں فصل اْگانے کے لیے جس طرح کے طریقہ کار زیرِ استعمال ہیں اْنہیں پْرانے طریقہ کار کے مْقابلے میں بہتر، معیاری اور جدیدیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کہا جا سکتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی اور معیاری زراعتی پیداوار کی بڑھتی ہوئی مانگ جیسی درپیش مْشکلات کے باوجو د زراعت کا شعبہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت مضبوط اور مستحکم طریقے سے آگے بڑھتا رہا ہے۔مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت اپنی روز مرہ کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اناج کے برآمد پر منحصر تھا لیکن آج ہماری پیداواری صلاحیت ایک ایسے مقام پرپہنچ چکی ہے جہاں ہمارا ملک نہ صرف اپنی ضروریات پورا کرنے کا اہل ہے بلکہ اناج کے حوالے سے دنیا کی ضروریات پورا کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

شکر ہے کہ دنیامیں آئے سبز انقلاب اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہوئی ترقی کی بدولت آج زراعت کے شعبے میں آج سے قبل ہماری پیداواری صلاحیت 50ملین ٹن پیداوارسے بڑھ کر 300ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔سبز انقلاب کے دور ان زراعت کے شعبے میں استعمال ہونے والے طریقہ کار میں چاہے بوائی کا معاملہ ہو یا فصل کی دیکھ بھال ِہر معاملے میں ٹیکنالوجی کا عمل و دخل بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جانکاری کی آسان و جلد ترسیل کی بدولت زراعت کے شعبے میں جس قسم کی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اْس سے آج نہ صرف ہمیں بہتر اور معیاری فصل حاصل ہو رہا ہے بلکہ ہماری پیداوار میں بھی اضافہ درج ہوا ہے۔اس حقیقت کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ زراعت کے شعبے میں مصنوعی طریقہ کار کا استعمال کوئی حیران کْن بات نہیں ہے۔
انسانی ذہانت پر مبنی یہ مصنوعی طریقہ کارایک ایسا عمل ہے جو کارگر ہونے کے ساتھ ساتھ نتیجہ خیز بھی ہے۔اس کی بدولت زراعتی عمل خودکار ہوجاتا ہے اور اس میں انسانی مداخلت کم ہوکر رہ جاتی ہے۔اس طرح مصنوعی ذہانت یا اے آئی پر مبنی یہ طریقہ کار زراعتی سرگرمیوں کے ضمن میں زیادہ موزون بن گیا ہے جو زمینداری سے وابستہ مختلف مراحل کے دوران صحیح فیصلے لینے کا خود اہل ہے۔جبکہ اس حوالے سے کسانوں کی طرف سے لئے جانے والے فیصلوں میں اکثر غلطیاں سرزد ہونے اور بھٹک جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔مستقبل میں فوڈ سیکورٹی اور کسانوں کی آمدنی کو یقینی بنانے کےلیے زراعت کے شعبہ میں خامیوں اور غلطیوں کو برداشت نہیں کیاجاسکتا ہے۔
عالمی سطح پر آج بھی دنیا بھر میں اے آئی کی اہمیت کو سمجھا جا رہا ہے۔ ایک مارکیٹ سروے کے مطابق سال 2025 تک عالمی بازار میں زراعتی شعبے میں گلوبل اے آئی کی منڈی کی مالیت 1550 امریکی ڈالر تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔

زراعتی شعبے میں اے آئی کا عمل و دخل تقریباًہر مرحلے پر ضروری ہے مگر فصل کا انتخاب ، اس کی دیکھ بھال اور پیشگی اندازوں کا تعین کرنے میں اس طریقہ کار کا استعمال نا گزیر ہے۔بھارت میں چونکہ زراعت اور موسمی حالات کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ چولی دامن کا ہے۔جہاں زراعت سے وابستہ جی ڈی پی کا 60 فیصد حصے کا دارومدار برساتی پانی پر منحصرہے،اس لئے اس شعبے کے مفاد میں موسمی حالات پر نظر رکھنا ناگزیر بن جاتا ہے بلکہ اس حوالے سے منفی صورتحال کی متبادل منصوبہ بندی بھی اہم ہے۔
دوسری طرف موسمی حالات میں آنے والے بدلاؤ کی وجہ سے کئی مقامات پر زمین حد سے زیادہ گیلی ہو جاتی ہے یا بے تحاشہ خشک ہوجاتی ہے جس سے روایتی فصلوں کی کامیاب کاشت کرنا مشکل یا نا ممکن ہو جاتی ہے۔ایسے حالات کا مْقابلہ کرنے کے ضمن میں ان علاقوں میں موسمی حالات، مْقامی ترجیحات ، پیداوار کی قیمت ، بازار کی مانگ اور دیگر پہلؤوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کاشتکاری کو جاری رکھنے کے سلسلے میں مْتبادل فصلوں کے انتخاب کرنے کے معا ملے میں اے آئی کا استعمال فائدہ مند ثابت ہو ا ہے۔ایسے علاقے جو موسمی یا دیگر امور کی وجہ سے بدلاؤ کے شکار ہیں، جس سلسلے میں مائکرو سافٹ نے کاشتکاری سے متعلق بین الاقوامی ادارے ریسرچ انسٹیٹوٹ فور دا سیمی اریڈ ٹروپکس کے اشتراک سے بھوچیتنا کے نام سے ایک ایپلیکیشن جاری کی ہے۔جس کے ذریعے کسانوں کو خریف کے دوران بیجوں کی بوائی کے لئے وقت کے تعین اور دیگر ضروری امور کے سلسلے میں ہدایات جاری کئے جاتے ہیں۔


اے آئی کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کی مدد سے زمینوں کے ساتھ ساتھ ان میں اْگنے والے فصلوں پر مکمل نظر رکھی جا سکتی ہے۔مسلسل تصویر کشی کے ذریعے اْگائی کے مختلف مراحل سے گزرنے کے دوارن نہ صرف زمین کی ساخت اور اِن میں اْگنے والے فصلوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے بلکہ اے آئی کے ذریعے ممکنہ مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
تربیتی پروگراموں اور منظر کشی کے ماڈلز کے ذریعے فصلوں کو لگنے والی بیماریوں کا پتہ لگاکر ان بیماریوں کے لئے دوایئوں کا انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے۔درکار لوازمات کے علاوہ اے آئی ماڈلزکی مدد سے بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا اور انہیں مزید پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی خلاء سے لی گئی تصویروں سے ہی زمین میں آنے والے بدلاؤ اور اس کی ساخت کے بارے میں پتہ لگایا جا سکتا ہے اور مٹی کی جانچ کرنے کے لئے لیباریٹری لے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
خلا میں موجود سیاروں سے حاصل ہونے والے پیغامات اور نیچے سے کھیتوں کی لی گئی تصویروں کی جانچ اور مْوازنہ کرنے کی بدولت کسان زمین کو صحت مند رکھنے کے قابل ہوں گے۔حکومت کی طرف سےسنہ 2018 میں کئی اسکیم متعارف کی گئی ہیں جس کی بدولت بھارت کے کسانوں کے لئے بازار کی دستیابی میں وسعت لانے میں مدد ملی ہے ، مگر ا س کا مقصد پیداوری نظام میں بہتری اور فصلوں کا درجہ بڑھانا بھی تھا۔
اے آئی والے طریقہ کار کی بدولت فصلوں کا معیار بین الاقوامی سطح کا ہوسکتا ہے ۔دنیا کے بازاروں تک اس کی رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔تازہ اناج ، میوہ جات اور سبزی اور فصلوں کا رنگ ، حجم اور دکھاوٹ کی بنیاد پر درجہ بندی کرنے کے لئے تصویر کشی کا خودکار نظام ایک بہتر ین و کارگر ترین نظام ہے۔
اے آئی سے لیس خود کار نظام کی مدد سےکسان اپنے موبائل فون پر لی گئی اپنی پیداوار کی تصویر کی جانچ کی بنیاد پر اور کسی طرح کی مداخلت کے بغیرہی فصلوں کی درجہ بندی کا اہل ہے۔پیشگی جائزاتی صلاحیت اے آئی کی ایک اور خوبی ہے جس کا استعمال زراعتی شعبے میں معاون و مددگار ثابت ہوا ہے۔
ادھر کرناٹک کی سرکار نے مائکروسافٹ کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخظ کئے ہیں۔ جس سے مائکرو ساٖفٹ چھوٹے درجے کے کسانوں کوبازار اور نرخوں کی آئندہ روش کے بارے میں پیشگی جانکاری بہم رکھے گا۔

اس مقصد کے لئے مائکرو سافٹ زراعتی پیداوار کی قیمتوں سے متعلق کرناٹک زراعتی قیمت کمیشن( کے اے پی سی) کی جانکاری کی بنیاد پر مثلاً فصل کہاں بوئی جا رہی ہے ، کب بوئی جا رہی ہے ، کب کاٹی جا رہی ہے اور وہاں کے موسمی حالات کیسے ہیںڈیجیٹل نظام کی مدد سے قیمتوں کے بارے میں پیشگی جانکاری فراہم کرے گا۔
اتنا ہی نہیں بلکہ مائکرو سافٹ نے جراثیم کْش داویئاں بنانے والی بھارت کی سے بڑی کمپنی سے اشتراک کیا ہے جس کے تحت اے آئی نظام کی مدد سے زراعت پر حملہ آور ہونے والے جراثیم اور اْن کاتدارک کرنے کے طریقوں کے بارے میں بھی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔
نیتی آیوگ کی طرف سے سال 2018 میں نیشنل اسٹریٹیجی فار آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے عنوان سے ایک دستاویزجاری کی جس میں آیوگ نے اے آئی کی اہمیت سے بھارت کس تیزی کے ساتھ ترقی کرنے والی اقتصادی طاقت اور آ بادی کے اعتبار سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بننے جارہا ہے۔نیتی آیوگ کی طرف سے پانچ شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن کی بدولت بھارت اے آئی کے حوالے سے دنیا میں ایک مْمتاز مْقام حاصل کر سکتا ہے جس میں زراعت کا شعبہ سر فہرست رہے گا۔

بھارت میں استعمال ہونے والا کاشتکاری نظام روایتی سوچ و طریقہ کار، وقتاً فوقتاً ترتیب دی جانے والی پالیسی کسی حد تک غیریقینیت پر مشتمل ایک مرکب نظام ہے۔اس کے علاوہ موسمی حالات،بین الاقوامی معاملات کی نہج اور آفات سماوی جیسے عنصر بھی زراعتی شعبے کی نزاکت میں اضافہ کر تے رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اے آئی ہی ایک ایسی تکنیک ہے جس کی بدولت نہ صرف کاشتکاری پر منفی اثر اندوز عناصر کا حل اور تدارک ڈھونڈا جا سکتا ہے بلکہ پیشگی جانکاری کی بْنیاد پرغلط جائزوں اور فیصلوں اور نْقصانات کو ٹالا بھی جا سکتا ہے۔اگرچہ ابتدا میں اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال ذرا مشکل لگ سکتا ہے لیکن مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کی بدولت ہم مانگ اور ترسیل کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
انڈین چیمبر آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم کے خان

انسان کی تاریخ میں زراعت کا پیشہ دنیا کا سب سے قدیم ترین پیشہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ زراعت کے طریقہ کار میں جدت آتی رہی ہے۔ ذراعتی شعبے میں فصل اْگانے کے لیے جس طرح کے طریقہ کار زیرِ استعمال ہیں اْنہیں پْرانے طریقہ کار کے مْقابلے میں بہتر، معیاری اور جدیدیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کہا جا سکتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی اور معیاری زراعتی پیداوار کی بڑھتی ہوئی مانگ جیسی درپیش مْشکلات کے باوجو د زراعت کا شعبہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت مضبوط اور مستحکم طریقے سے آگے بڑھتا رہا ہے۔مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت اپنی روز مرہ کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اناج کے برآمد پر منحصر تھا لیکن آج ہماری پیداواری صلاحیت ایک ایسے مقام پرپہنچ چکی ہے جہاں ہمارا ملک نہ صرف اپنی ضروریات پورا کرنے کا اہل ہے بلکہ اناج کے حوالے سے دنیا کی ضروریات پورا کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

شکر ہے کہ دنیامیں آئے سبز انقلاب اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہوئی ترقی کی بدولت آج زراعت کے شعبے میں آج سے قبل ہماری پیداواری صلاحیت 50ملین ٹن پیداوارسے بڑھ کر 300ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔سبز انقلاب کے دور ان زراعت کے شعبے میں استعمال ہونے والے طریقہ کار میں چاہے بوائی کا معاملہ ہو یا فصل کی دیکھ بھال ِہر معاملے میں ٹیکنالوجی کا عمل و دخل بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جانکاری کی آسان و جلد ترسیل کی بدولت زراعت کے شعبے میں جس قسم کی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اْس سے آج نہ صرف ہمیں بہتر اور معیاری فصل حاصل ہو رہا ہے بلکہ ہماری پیداوار میں بھی اضافہ درج ہوا ہے۔اس حقیقت کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ زراعت کے شعبے میں مصنوعی طریقہ کار کا استعمال کوئی حیران کْن بات نہیں ہے۔
انسانی ذہانت پر مبنی یہ مصنوعی طریقہ کارایک ایسا عمل ہے جو کارگر ہونے کے ساتھ ساتھ نتیجہ خیز بھی ہے۔اس کی بدولت زراعتی عمل خودکار ہوجاتا ہے اور اس میں انسانی مداخلت کم ہوکر رہ جاتی ہے۔اس طرح مصنوعی ذہانت یا اے آئی پر مبنی یہ طریقہ کار زراعتی سرگرمیوں کے ضمن میں زیادہ موزون بن گیا ہے جو زمینداری سے وابستہ مختلف مراحل کے دوران صحیح فیصلے لینے کا خود اہل ہے۔جبکہ اس حوالے سے کسانوں کی طرف سے لئے جانے والے فیصلوں میں اکثر غلطیاں سرزد ہونے اور بھٹک جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔مستقبل میں فوڈ سیکورٹی اور کسانوں کی آمدنی کو یقینی بنانے کےلیے زراعت کے شعبہ میں خامیوں اور غلطیوں کو برداشت نہیں کیاجاسکتا ہے۔
عالمی سطح پر آج بھی دنیا بھر میں اے آئی کی اہمیت کو سمجھا جا رہا ہے۔ ایک مارکیٹ سروے کے مطابق سال 2025 تک عالمی بازار میں زراعتی شعبے میں گلوبل اے آئی کی منڈی کی مالیت 1550 امریکی ڈالر تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔

زراعتی شعبے میں اے آئی کا عمل و دخل تقریباًہر مرحلے پر ضروری ہے مگر فصل کا انتخاب ، اس کی دیکھ بھال اور پیشگی اندازوں کا تعین کرنے میں اس طریقہ کار کا استعمال نا گزیر ہے۔بھارت میں چونکہ زراعت اور موسمی حالات کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ چولی دامن کا ہے۔جہاں زراعت سے وابستہ جی ڈی پی کا 60 فیصد حصے کا دارومدار برساتی پانی پر منحصرہے،اس لئے اس شعبے کے مفاد میں موسمی حالات پر نظر رکھنا ناگزیر بن جاتا ہے بلکہ اس حوالے سے منفی صورتحال کی متبادل منصوبہ بندی بھی اہم ہے۔
دوسری طرف موسمی حالات میں آنے والے بدلاؤ کی وجہ سے کئی مقامات پر زمین حد سے زیادہ گیلی ہو جاتی ہے یا بے تحاشہ خشک ہوجاتی ہے جس سے روایتی فصلوں کی کامیاب کاشت کرنا مشکل یا نا ممکن ہو جاتی ہے۔ایسے حالات کا مْقابلہ کرنے کے ضمن میں ان علاقوں میں موسمی حالات، مْقامی ترجیحات ، پیداوار کی قیمت ، بازار کی مانگ اور دیگر پہلؤوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کاشتکاری کو جاری رکھنے کے سلسلے میں مْتبادل فصلوں کے انتخاب کرنے کے معا ملے میں اے آئی کا استعمال فائدہ مند ثابت ہو ا ہے۔ایسے علاقے جو موسمی یا دیگر امور کی وجہ سے بدلاؤ کے شکار ہیں، جس سلسلے میں مائکرو سافٹ نے کاشتکاری سے متعلق بین الاقوامی ادارے ریسرچ انسٹیٹوٹ فور دا سیمی اریڈ ٹروپکس کے اشتراک سے بھوچیتنا کے نام سے ایک ایپلیکیشن جاری کی ہے۔جس کے ذریعے کسانوں کو خریف کے دوران بیجوں کی بوائی کے لئے وقت کے تعین اور دیگر ضروری امور کے سلسلے میں ہدایات جاری کئے جاتے ہیں۔


اے آئی کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کی مدد سے زمینوں کے ساتھ ساتھ ان میں اْگنے والے فصلوں پر مکمل نظر رکھی جا سکتی ہے۔مسلسل تصویر کشی کے ذریعے اْگائی کے مختلف مراحل سے گزرنے کے دوارن نہ صرف زمین کی ساخت اور اِن میں اْگنے والے فصلوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے بلکہ اے آئی کے ذریعے ممکنہ مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
تربیتی پروگراموں اور منظر کشی کے ماڈلز کے ذریعے فصلوں کو لگنے والی بیماریوں کا پتہ لگاکر ان بیماریوں کے لئے دوایئوں کا انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے۔درکار لوازمات کے علاوہ اے آئی ماڈلزکی مدد سے بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا اور انہیں مزید پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی خلاء سے لی گئی تصویروں سے ہی زمین میں آنے والے بدلاؤ اور اس کی ساخت کے بارے میں پتہ لگایا جا سکتا ہے اور مٹی کی جانچ کرنے کے لئے لیباریٹری لے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
خلا میں موجود سیاروں سے حاصل ہونے والے پیغامات اور نیچے سے کھیتوں کی لی گئی تصویروں کی جانچ اور مْوازنہ کرنے کی بدولت کسان زمین کو صحت مند رکھنے کے قابل ہوں گے۔حکومت کی طرف سےسنہ 2018 میں کئی اسکیم متعارف کی گئی ہیں جس کی بدولت بھارت کے کسانوں کے لئے بازار کی دستیابی میں وسعت لانے میں مدد ملی ہے ، مگر ا س کا مقصد پیداوری نظام میں بہتری اور فصلوں کا درجہ بڑھانا بھی تھا۔
اے آئی والے طریقہ کار کی بدولت فصلوں کا معیار بین الاقوامی سطح کا ہوسکتا ہے ۔دنیا کے بازاروں تک اس کی رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔تازہ اناج ، میوہ جات اور سبزی اور فصلوں کا رنگ ، حجم اور دکھاوٹ کی بنیاد پر درجہ بندی کرنے کے لئے تصویر کشی کا خودکار نظام ایک بہتر ین و کارگر ترین نظام ہے۔
اے آئی سے لیس خود کار نظام کی مدد سےکسان اپنے موبائل فون پر لی گئی اپنی پیداوار کی تصویر کی جانچ کی بنیاد پر اور کسی طرح کی مداخلت کے بغیرہی فصلوں کی درجہ بندی کا اہل ہے۔پیشگی جائزاتی صلاحیت اے آئی کی ایک اور خوبی ہے جس کا استعمال زراعتی شعبے میں معاون و مددگار ثابت ہوا ہے۔
ادھر کرناٹک کی سرکار نے مائکروسافٹ کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخظ کئے ہیں۔ جس سے مائکرو ساٖفٹ چھوٹے درجے کے کسانوں کوبازار اور نرخوں کی آئندہ روش کے بارے میں پیشگی جانکاری بہم رکھے گا۔

اس مقصد کے لئے مائکرو سافٹ زراعتی پیداوار کی قیمتوں سے متعلق کرناٹک زراعتی قیمت کمیشن( کے اے پی سی) کی جانکاری کی بنیاد پر مثلاً فصل کہاں بوئی جا رہی ہے ، کب بوئی جا رہی ہے ، کب کاٹی جا رہی ہے اور وہاں کے موسمی حالات کیسے ہیںڈیجیٹل نظام کی مدد سے قیمتوں کے بارے میں پیشگی جانکاری فراہم کرے گا۔
اتنا ہی نہیں بلکہ مائکرو سافٹ نے جراثیم کْش داویئاں بنانے والی بھارت کی سے بڑی کمپنی سے اشتراک کیا ہے جس کے تحت اے آئی نظام کی مدد سے زراعت پر حملہ آور ہونے والے جراثیم اور اْن کاتدارک کرنے کے طریقوں کے بارے میں بھی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔
نیتی آیوگ کی طرف سے سال 2018 میں نیشنل اسٹریٹیجی فار آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے عنوان سے ایک دستاویزجاری کی جس میں آیوگ نے اے آئی کی اہمیت سے بھارت کس تیزی کے ساتھ ترقی کرنے والی اقتصادی طاقت اور آ بادی کے اعتبار سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بننے جارہا ہے۔نیتی آیوگ کی طرف سے پانچ شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن کی بدولت بھارت اے آئی کے حوالے سے دنیا میں ایک مْمتاز مْقام حاصل کر سکتا ہے جس میں زراعت کا شعبہ سر فہرست رہے گا۔

بھارت میں استعمال ہونے والا کاشتکاری نظام روایتی سوچ و طریقہ کار، وقتاً فوقتاً ترتیب دی جانے والی پالیسی کسی حد تک غیریقینیت پر مشتمل ایک مرکب نظام ہے۔اس کے علاوہ موسمی حالات،بین الاقوامی معاملات کی نہج اور آفات سماوی جیسے عنصر بھی زراعتی شعبے کی نزاکت میں اضافہ کر تے رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اے آئی ہی ایک ایسی تکنیک ہے جس کی بدولت نہ صرف کاشتکاری پر منفی اثر اندوز عناصر کا حل اور تدارک ڈھونڈا جا سکتا ہے بلکہ پیشگی جانکاری کی بْنیاد پرغلط جائزوں اور فیصلوں اور نْقصانات کو ٹالا بھی جا سکتا ہے۔اگرچہ ابتدا میں اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال ذرا مشکل لگ سکتا ہے لیکن مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کی بدولت ہم مانگ اور ترسیل کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
انڈین چیمبر آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم کے خان

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 17, 2020, 6:39 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.