ETV Bharat / bharat

بھارت کے سیاسی گورنر - بھارت کے سیاسی گورنر

ایک گورنر کو ریاست میں کوئی آئینی بحران پیدا ہونے پر ہی سامنے آکر اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیے ، لیکن کیرالہ اور مغربی بنگال میں گورنر کے تنازعات کا محور بننے کے واقعات ان کی جانب سے اپنے حدود چھلانگنے کی واضح مثال ہیں۔

بھارت کے سیاسی گورنر
بھارت کے سیاسی گورنر
author img

By

Published : Jan 28, 2020, 7:58 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 7:49 AM IST

بھارتی آئین کے پہلے شیڈول میں اس بات کا اعلان ہے کہ بھارت ایک اتحادِ ریاست کے طور پر ترقی کی منزل طے کرے گا۔بانیانِ آئین کا خیال تھا کہ پارلیمانی جمہوریت بہترین طور پر منظم جمہوری وفاق کی بنیادوں پر پھلے پھولے گی لیکن آج کی حقیقت مختلف ہے۔

چناچہ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کی میں سرکار ہوں کی جرات نے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔ مغربی بنگال اور کیرالہ کے گورنروں سے متعلق حالیہ تنازعات کے بادل وفاقی ڈھانچے میں دراڑیں پیدا کرنے کا راستہ بناتے محسوس ہورہے ہیں۔

کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان کا یہ رویہ کہ مرکزی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کی حمایت انکی ذاتی ذمہ داری ہے، جو نہایت ہی حیرت انگیز ہے۔

ایل ڈی ایف حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں شہری ترمیمی قانون سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی انکی ہدایت کیرالہ میں گرما گرم سیاست کا ایک ثبوت ہے۔دوسری جانب مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھنکھارتنازعات اور شدید تنقید کا محور بن گئے ہیں۔وہ وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی کے فیصلوں کی کھلے عام تنقید کرتے ہیں ۔

یہاں تک کہ انہیں جادھوپور یونیورسٹی میں 'بھاجپا کارکن دھنکھار واپس جاؤ کے نعروں' والی تختیاں دیکھنا پڑی ہیں۔حالانکہ آئینی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر گورنر وں کی ذمہ داریاں محدود اور برائے نام ہیں۔

دراصل ایک گورنر کو ریاست میں کوئی آئینی بحران پیدا ہونے پر ہی سامنے آکر اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیے ، لیکن کیرالہ اور مغربی بنگال میں گورنروں کے تنازعات کا محور بننے کے واقعات ان کی جانب سے اپنے حدود چھلانگنے کی واضح مثال ہیں۔البتہ ان دونوں ریاستوں میں غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں کا ٹھوس ردعمل محبانِ جمہوریت کی عکاسی کرتا ہے۔

آئین ساز اسمبلی میں پنڈت نہرو نے راج بھون میں تعینات کئے جانے والی شخصیات (گورنروں)سے متعلق کہا تھا کہ سیاسی قائدین ذاتی فائدے کیلئے مزید اقتدار چاہتے ہیں لیکن یہ تعلیم دان یا دیگر شعبوں کے ماہرین ہیں جو حکومت کے ساتھ پوری طرح تعاون کرتے ہیں ۔یہ دنوں نظریات عظیم ہوا کرتے تھے لیکن مرکز میں دہائیوں پر محیط مرکزی اور کانگریس کی حکمرانی نے گورنروں کے منصب کو بے وقار کردیا یہاں تک کہ وہ غیر اخلاقی سیاست کرنے لگے ہیں، جو متعلقہ ریاستوں کے پہلے شہری کہلاتے ہیں۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے بہار اسمبلی کو تحلیل کرنے میں بھوٹا سنگھ کے کردار اور مرکزی کابینہ کے رویہ کی تنقید کی تھی۔ایسی نامور شخصیات،جیسے کہ ذاکر حسین، سروجنی نائیڈو، سرجیت سنگھ برنالا، موجود رہی ہیں جنکی وجہ سے منصبِ گورنری کی تعظیم بڑھی ۔لیکن گننے لگیں تو بدنام سیاستدانوں جیسے رام لال،سبتی راضی،بھنڈاری،کی تعداد زیادہ ہے۔

متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کی گورنروں کو مرکزی وزیر بنانے اور وزیروں کو گورنروں کا کردار دینے میں بڑی مہارت تھی یہاں تک کہ این ڈی اے بھی راج بھونوں کے ذریعہ غیر بی جے پی حکومتوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔

کیرالہ اور مغربی بنگال میں سیاسی کڑھائی کا موجودہ ابال اس بات کی واضح مثالیں ہیں۔ کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان جنہوں نے بلدیاتی اداروں میں ارکان کی تعداد کو بڑھانے کی قانون سازی کو روک دیا تھا، شہری ترمیمی قانون کے معاملے پر ریاستی حکومت پر الزامات عائد کیے۔

وہیں (گورنر سے مشورہ کئے بغیر مرکزی سرکار کے نام انکا خط) جیسے سوالات کی بوچھاڑ کے ساتھ گورنر جگدیپ دھنکھار نے مغربی بنگال کی حکومت کو لوہے کے چنے چبوا دئیے۔ کیا یہی وہ طریقہ ہے کہ جس پرایک گورنر کو کام کرنا چاہیے جنہیں اپنے آئینی وقار کو گھٹائے بغیر ریاست اور مرکز کے درمیان رابطہ بنائے رکھنا ہوتا ہے؟

راج بھون کو سیاست زدہ کرکے گورنری کے معزز ادارہ کو بے وقار کرنے کیلئے سبھی جماعتوں کو یکساں طور پر موردِ الزام ٹھہرایا جانا چاہیئے۔اترپردیش میں رمیش بھنڈاری بی جے پی کی سرکار کو اکھاڑنے کیلئے بڑے اتاولے ہورہے ہیں جبکہ بہار میں سندر سنگھ بھنڈاری نے بی جے پی مخالف لالو حکومت کا گلا گھونٹنے کیلئے سبھی اخلاقی حدود پھلانگی ہیں۔

یہ ایک کھلا راز ہے کہ بطورِ گورنر جموں کشمیر اسمبلی کو تحلیل کرنے کے پیچھیے ستیہ پال ملک تھے ۔اس طرح جموں کشمیر میں بی جے پی کے مخالفین، پی ڈی ایف، نیشنل کانفرنس،کانگریس متحد ہوگئے۔

سنہ 1994میں سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ (ایس آر بومئی بنامِ مرکزی سرکار) دیتے ہوئے کرناٹک بحران کو لیکر مرکزی حکومت کی کارروائی کو کالعدم قرار دیا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ گورنروں کو اپنی پارٹی وابستگیوں سے بالاترہوکر اور غیر جانبداری کے ساتھ کام کرنا چاہیئے۔

سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ 356اور اس سے متعلق مسائل پر بھی تفصیلی بحث کی تھی۔اس سے قبل سرکاری کمیشن نے اسکے وسیع مطالعہ کے حصہ کے بطور،گورنروں کے کام کاج کے مطلوبہ طریقہ سے متعلق تفصیلی تجاویز دی تھیں۔

اس میں نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ جو گورنر اپنی پارٹیوں کے ساتھ وفادار رہتے ہوئے کام کرتے ہیں،وہی سیاسی بحران پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے تاہم اس کمیشن کی تجاویز کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا تھااور یہی غیر ذمہ داری ہے جسکی وجہ سے ملک کی آئین کی بنیاد ہل رہی ہے اور روح کانپتی محسوس ہورہی ہے۔
نو سال پہلے، پی جے تھامس کی بطورِ چودھویں چیف ویجی لنس کمشنر کے تعیناتی کو منسوخ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اس منصب کے مناسب اخلاقی اصول رکھنے والے شخص کو ہی تعینات کیا جانا چاہیئے۔

ملک کے راج بھونوں کے معزز ادارے پر لگے گرہن کو تب ہی ہٹایا جاسکتا ہے کہ جب گورنر ریاستی اور مرکزی حکومت کے بیچ پُل کا کام کرے۔ان کی تعیناتی کے نظام میں مکمل اصلاح کرکے ایسی مناسب شخصیات کو تعینات کیا جائے جو اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرنے کے وعدہ بند ہوں۔

بھارتی آئین کے پہلے شیڈول میں اس بات کا اعلان ہے کہ بھارت ایک اتحادِ ریاست کے طور پر ترقی کی منزل طے کرے گا۔بانیانِ آئین کا خیال تھا کہ پارلیمانی جمہوریت بہترین طور پر منظم جمہوری وفاق کی بنیادوں پر پھلے پھولے گی لیکن آج کی حقیقت مختلف ہے۔

چناچہ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کی میں سرکار ہوں کی جرات نے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔ مغربی بنگال اور کیرالہ کے گورنروں سے متعلق حالیہ تنازعات کے بادل وفاقی ڈھانچے میں دراڑیں پیدا کرنے کا راستہ بناتے محسوس ہورہے ہیں۔

کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان کا یہ رویہ کہ مرکزی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کی حمایت انکی ذاتی ذمہ داری ہے، جو نہایت ہی حیرت انگیز ہے۔

ایل ڈی ایف حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں شہری ترمیمی قانون سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی انکی ہدایت کیرالہ میں گرما گرم سیاست کا ایک ثبوت ہے۔دوسری جانب مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھنکھارتنازعات اور شدید تنقید کا محور بن گئے ہیں۔وہ وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی کے فیصلوں کی کھلے عام تنقید کرتے ہیں ۔

یہاں تک کہ انہیں جادھوپور یونیورسٹی میں 'بھاجپا کارکن دھنکھار واپس جاؤ کے نعروں' والی تختیاں دیکھنا پڑی ہیں۔حالانکہ آئینی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر گورنر وں کی ذمہ داریاں محدود اور برائے نام ہیں۔

دراصل ایک گورنر کو ریاست میں کوئی آئینی بحران پیدا ہونے پر ہی سامنے آکر اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیے ، لیکن کیرالہ اور مغربی بنگال میں گورنروں کے تنازعات کا محور بننے کے واقعات ان کی جانب سے اپنے حدود چھلانگنے کی واضح مثال ہیں۔البتہ ان دونوں ریاستوں میں غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں کا ٹھوس ردعمل محبانِ جمہوریت کی عکاسی کرتا ہے۔

آئین ساز اسمبلی میں پنڈت نہرو نے راج بھون میں تعینات کئے جانے والی شخصیات (گورنروں)سے متعلق کہا تھا کہ سیاسی قائدین ذاتی فائدے کیلئے مزید اقتدار چاہتے ہیں لیکن یہ تعلیم دان یا دیگر شعبوں کے ماہرین ہیں جو حکومت کے ساتھ پوری طرح تعاون کرتے ہیں ۔یہ دنوں نظریات عظیم ہوا کرتے تھے لیکن مرکز میں دہائیوں پر محیط مرکزی اور کانگریس کی حکمرانی نے گورنروں کے منصب کو بے وقار کردیا یہاں تک کہ وہ غیر اخلاقی سیاست کرنے لگے ہیں، جو متعلقہ ریاستوں کے پہلے شہری کہلاتے ہیں۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے بہار اسمبلی کو تحلیل کرنے میں بھوٹا سنگھ کے کردار اور مرکزی کابینہ کے رویہ کی تنقید کی تھی۔ایسی نامور شخصیات،جیسے کہ ذاکر حسین، سروجنی نائیڈو، سرجیت سنگھ برنالا، موجود رہی ہیں جنکی وجہ سے منصبِ گورنری کی تعظیم بڑھی ۔لیکن گننے لگیں تو بدنام سیاستدانوں جیسے رام لال،سبتی راضی،بھنڈاری،کی تعداد زیادہ ہے۔

متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کی گورنروں کو مرکزی وزیر بنانے اور وزیروں کو گورنروں کا کردار دینے میں بڑی مہارت تھی یہاں تک کہ این ڈی اے بھی راج بھونوں کے ذریعہ غیر بی جے پی حکومتوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔

کیرالہ اور مغربی بنگال میں سیاسی کڑھائی کا موجودہ ابال اس بات کی واضح مثالیں ہیں۔ کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان جنہوں نے بلدیاتی اداروں میں ارکان کی تعداد کو بڑھانے کی قانون سازی کو روک دیا تھا، شہری ترمیمی قانون کے معاملے پر ریاستی حکومت پر الزامات عائد کیے۔

وہیں (گورنر سے مشورہ کئے بغیر مرکزی سرکار کے نام انکا خط) جیسے سوالات کی بوچھاڑ کے ساتھ گورنر جگدیپ دھنکھار نے مغربی بنگال کی حکومت کو لوہے کے چنے چبوا دئیے۔ کیا یہی وہ طریقہ ہے کہ جس پرایک گورنر کو کام کرنا چاہیے جنہیں اپنے آئینی وقار کو گھٹائے بغیر ریاست اور مرکز کے درمیان رابطہ بنائے رکھنا ہوتا ہے؟

راج بھون کو سیاست زدہ کرکے گورنری کے معزز ادارہ کو بے وقار کرنے کیلئے سبھی جماعتوں کو یکساں طور پر موردِ الزام ٹھہرایا جانا چاہیئے۔اترپردیش میں رمیش بھنڈاری بی جے پی کی سرکار کو اکھاڑنے کیلئے بڑے اتاولے ہورہے ہیں جبکہ بہار میں سندر سنگھ بھنڈاری نے بی جے پی مخالف لالو حکومت کا گلا گھونٹنے کیلئے سبھی اخلاقی حدود پھلانگی ہیں۔

یہ ایک کھلا راز ہے کہ بطورِ گورنر جموں کشمیر اسمبلی کو تحلیل کرنے کے پیچھیے ستیہ پال ملک تھے ۔اس طرح جموں کشمیر میں بی جے پی کے مخالفین، پی ڈی ایف، نیشنل کانفرنس،کانگریس متحد ہوگئے۔

سنہ 1994میں سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ (ایس آر بومئی بنامِ مرکزی سرکار) دیتے ہوئے کرناٹک بحران کو لیکر مرکزی حکومت کی کارروائی کو کالعدم قرار دیا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ گورنروں کو اپنی پارٹی وابستگیوں سے بالاترہوکر اور غیر جانبداری کے ساتھ کام کرنا چاہیئے۔

سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ 356اور اس سے متعلق مسائل پر بھی تفصیلی بحث کی تھی۔اس سے قبل سرکاری کمیشن نے اسکے وسیع مطالعہ کے حصہ کے بطور،گورنروں کے کام کاج کے مطلوبہ طریقہ سے متعلق تفصیلی تجاویز دی تھیں۔

اس میں نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ جو گورنر اپنی پارٹیوں کے ساتھ وفادار رہتے ہوئے کام کرتے ہیں،وہی سیاسی بحران پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے تاہم اس کمیشن کی تجاویز کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا تھااور یہی غیر ذمہ داری ہے جسکی وجہ سے ملک کی آئین کی بنیاد ہل رہی ہے اور روح کانپتی محسوس ہورہی ہے۔
نو سال پہلے، پی جے تھامس کی بطورِ چودھویں چیف ویجی لنس کمشنر کے تعیناتی کو منسوخ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اس منصب کے مناسب اخلاقی اصول رکھنے والے شخص کو ہی تعینات کیا جانا چاہیئے۔

ملک کے راج بھونوں کے معزز ادارے پر لگے گرہن کو تب ہی ہٹایا جاسکتا ہے کہ جب گورنر ریاستی اور مرکزی حکومت کے بیچ پُل کا کام کرے۔ان کی تعیناتی کے نظام میں مکمل اصلاح کرکے ایسی مناسب شخصیات کو تعینات کیا جائے جو اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرنے کے وعدہ بند ہوں۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 28, 2020, 7:49 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.