اتراکھنڈ کے تاریخی شہر الموڑہ کئی عظیم شخصیات کی آماجگاہ ہے، جن میں بھارت رتن گووند بلبھ بھائی پنت اور رقص کے شہنشاہ اودئے شنکر شامل ہیں۔
آج ہم آپ کو ایک ایسی شخصیت سے ملاقات کرانے جا رہے ہیں جن کا نام آئرین پنت تھا جو بعد میں پاکستان کی خاتون اول بنیں۔ آئرین کو ان کی خدمات کے لئے پاکستان کا سب سے بڑا شہری اعزاز 'نشانِ امتیاز' اور 'مادر وطن' کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔
برہمن کنبے نے عیسائی مذہب قبول کیا۔
آئرین پینت کی پیدائش 13 فروری 1905 کو الموڑہ کے ڈینیئل پنت کے گھر میں ہوئی تھی۔ آئرین پنت کے دادا نے 1887 میں عیسائی مذہب قبول کیا تھا۔
شروعاتی تعلیم الموڑہ اور نینی تال میں پوری کرنے کے بعد آئرین لکھنؤ چلی گئیں اور وہاں لال باغ اسکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مشہور آئی ٹی (ایزابیلا تھوبرن) کالج سے اکنامکس اور مذہبی علوم میں ایم اے کیا۔ ایم اے میں وہ اپنے درجہ میں واحد پراعتماد لڑکی تھیں۔
الموڑہ میں محفوظ یادیں۔
الموڑہ کے میتھوڈیٹ چرچ کے نیچے واقع آئرین پنت کے پشتینی مکان میں آج بھی ان کی یادیں محفوظ ہیں۔ اب اس مکان میں ان کے بھائی نارمن پنت کی بہو میرا پنت اور انکا پوتا راہل پنت رہتے ہیں۔
راہل پنت نے بتایا کہ آئرین پنت کی یادیں آج بھی الموڑہ میں موجود ہیں، حالانکہ شادی کے بعد وہ ایک بار بھی الموڑہ نہیں آسکیں لیکن وہ اپنے بھائی نارمن پنت کو خط لکھا کرتی تھیں۔
لیاقت علی اور آئرین پہلی بار اس طرح ملے
لکھنؤ کالج میں تعلیم کے دوران بہار میں آنے والے سیلاب کے لئے ثقافتی پروگرام منعقد کیا جا رہا تھا۔ رقم جمع کرنے کے لئے آئرین پنت کو ٹکٹ فروخت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس تقریب کے لئے فنڈ جمع کرنے کے لئے آئرین پنت ٹکٹ بیچنے لکھنؤ اسمبلی گئیں، جہاں ان کی ملاقات لیاقت علی خان سے ہوئی.
پہلی بار لیاقت نے ٹکٹ خریدنے سے انکار کر دیا پھر کچھ دیر درخواست کرنے پر وہ راضی ہوگئے۔ آئرین نے انہیں کم سے کم 2 ٹکٹ خریدنے کی درخواست کی۔ لیاقت نے کہا کہ وہ کسی کو نہیں جانتے جنہیں وہ اپنے ساتھ لا سکتے ہوں۔ اس پر آئرین نے جواب دیا کہ اگر آپکے ساتھ بیٹھنے کے لئے کوئی نہیں ہوگا تو وہ خود ان کے ساتھ بیٹھیں گی۔ یہیں سے دونوں کی ملاقات کا دور شروع ہوا۔ یہی لیاقت علی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے۔
آئرین نے دہلی کے کالج میں کام کیا
آئرین نے ڈیڑھ سال تک دہلی کے اندر پرستھ کالج میں پروفیسر کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں۔ اس دوران ایک موقع ایسا آیا جس نے انھیں لیاقت خان کے ساتھ دوبارہ رابطے میں لایا۔ دراصل آئرین کو یہ اطلاع ملی تھی کہ لیاقت علی یوپی قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے ہیں۔ آئرین نے فوراً ہی انہیں مبارکباد کا پیغام بھیجا۔ آئرین کا میسج ملنے کے بعد لیاقت نے بھی انہیں جواب بھیجا اور دہلی کے کناٹ پلیس میں واقع وینگرز ریسٹورنٹ میں آئرین کو چائے پینے کی دعوت دی اور اس طرح یہ ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا جو شادی تک پہنچا۔
شادی دہلی کے سب سے مہنگے ہوٹل میں ہوئی
لیاقت علی پہلے ہی شادی شدہ تھے اور ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔ انہوں نے اپنی کزن جہاں آرا بیگم سے شادی کی تھی لیکن آئرین کی شخصیت ایسی تھی کہ لیاقت علی نے ان سے متاثر ہوکر 16 اپریل 1933 کو ان سے شادی کرلی۔ یہ شادی دہلی کے واحد مہنگے ترین مشہور 'مینڈیس ہوٹل' میں ہوئی تھی۔ یہ ہوٹل پہلے 'میٹرو پولیٹن ہوٹل' ہوا کرتا تھا۔ سنہ 1903 میں اس کا نام 'مینڈیس' رکھا گیا۔ تاہم اب اس کا نام تبدیل کرکے 'ابرائے میڈینز' کردیا گیا ہے۔ 1994 میں اس ہوٹل کو ہیریٹیج ہوٹل کا درجہ دیا گیا تھا۔
شادی کے بعد بنیں گل رعنا
شادی کے بعد آئرین نے اسلام قبول کیا اور ان کا نام گل رعنا رکھا گیا۔ بیگم لیاقت علی خان نے نہ صرف اپنی آنکھوں کے سامنے تاریخ تخلیق ہوتے ہوئے دیکھا بلکہ وہ خود بھی اس کا ایک حصہ تھیں۔ اگست 1947 میں گلِ رعنا اپنے شوہر لیاقت علی اور اپنے دو بیٹوں اشرف اور اکبر کے ساتھ دہلی سے کراچی روانہ ہوگئیں۔ لیاقت علی پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے اور رعنا 'خاتون اول' تھیں۔ اقلیتی اور خواتین وزیر کی حیثیت سے بھی انہیں کابینہ میں جگہ ملی۔
لیاقت علی خان کا قتل
1947 میں بھارت سے علیحدگی کے بعد پاکستان بن گیا اور لیاقت علی نئے ملک کے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔ اسی وقت گل رعنا پاکستان کی 'خاتون اول' بن گئیں۔ اس کے ساتھ ہی لیاقت علی خان نے انہیں اقلیتی اور وزیر خواتین کی حیثیت سے اپنی کابینہ میں جگہ دی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اس کے بعد 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں کمپنی باغ میں اجتماع سے خطاب کے دوران لیاقت علی خان کا قتل کر دیا گیا۔
ڈکٹیٹر سے مقابلہ کیا
اس واقعہ کے بعد لوگوں کا خیال تھا کہ رانا پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے کا فیصلہ کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اپنی آخری سانس تک پاکستان میں ہی رہیں اور وہاں خواتین کے حقوق کے لئے بہت جدوجہد کی۔ انہوں نے وہاں موجود بنیاد پرستوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔ رانا نے پاکستان کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق سے بھی ملاقات کی۔ جب حق نے بھٹو کو پھانسی دی تو رانا نے فوجی حکومت کے خلاف مہم تیز کردی۔ انہوں نے جنرل ضیاء کے اسلامی قانون کے نفاذ کے فیصلے کی بھی سختی سے مخالفت کی۔
پاکستان کی سفیر۔
تین سال بعد انہیں پہلے ہالینڈ اور پھر اٹلی میں پاکستان کا سفیر بنایا گیا۔ 30 جون 1990 کو رعنا لیاقت علی نے آخری سانس لی۔ انہوں نے 85 سال کی زندگی کے دوران بھارت میں 43 سال اور پاکستان میں تقریباً اتنے ہی سال گزارے۔ رعنا سال 1947 کے بعد تین بار بھارت آئیں لیکن وہ کبھی بھی الموڑا نہیں گئیں لیکن الموڑا کی یادیں ہمیشہ ان کے ذہن میں رہیں جسے وہ اپنے بھائی کے خطوط کے ذریعہ ظاہر کرتی رہیں۔