ETV Bharat / bharat

بابری مسجد کی تاریخی حیثیت، سنہ 1950 تک

ابتدائے تعمیر سے بابری مسجد میں نماز پنج گانہ اور جمعہ ہوتا رہا ہے، عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب یعنی 1858ء سے 1870ء تک اس مسجد کے امام و خطیب محمد اصغر تھے۔

بابری مسجد کی تاریخی حیثیت، سنہ 1950 تک
author img

By

Published : Nov 9, 2019, 8:00 AM IST

سنہ 1870ء تا 1900ء کی درمیانی مدت میں مولوی عبدالرشید نے امامت کے فرائض انجام دیے، 1901ء سے 1930ء کے عرصے میں یہ خدمت مولوی عبدالقادر کے سپرد رہی، اور 1930ء سے 1939ء مسجد کے قرق ہونے کی تاریخ تک مولوی عبدالغفار کی اقتداء میں مسلمان اس مسجد میں نماز پنج وقتہ اور جمعہ ادا کرتے تھے۔

تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ بابرکے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 935 ہجری/ 1528ء میں تعمیر کرائی تھی۔ 27مارچ 1932ء کو گئو کشی کے نام پر ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو نشانہ بناکر پہلی مرتبہ ہنگامہ برپا کیا تھا اور مسجد میں گھس کر ان بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی۔

بابری مسجد کے مصارف کے لیے عہد مغلیہ میں مبلغ ساٹھ روپیے سالانہ شاہی خزانے سے ملتے تھے، نوابان اودھ کے دور میں یہ رقم بڑھا کر تین سو دو روپیے تین آنہ چھ پائی کردی گئی تھی۔

برطانوی اقتدار میں بھی یہ رقم بحال رہی، پھر بندوبست اوّل کے وقت نقد کی بجائے دو گاؤں بھورن پور اور شولاپور متصل ایودھیا اس کے مصارف کے لیے دیے گئے، غرض کہ اپنی ابتداء تعمیر 935ہجری/1528 ٔ سے1369ہجری/1949 تک یہ مسجد بغیر کسی نزاع و اختلاف کے مسجد ہی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک مقدس و محترم عبادت گاہ رہی اور مسلمان امن وسکون کے ساتھ اس میں اپنی مذہبی عبادت ادا کرتے تھے۔

مستند تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے صدیوں قبل مسلمان ایودھیا میں آباد تھے، اور یہاں کے ہندو مسلم پوری یک جہتی اور یگانگت کے ساتھ رہتے سہتے تھے۔

سنہ 1855 ٔ / 1272 ہجری سے پہلے کسی مذہبی معاملہ میں یہاں کے باشندوں کے درمیان نہ تو کوئی تنازعہ رونما ہوا اور نہ باہمی ٹکراؤ کی نوبت آئی ہو۔ صحیح تاریخوں اور مذہبی نوشتوں سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

لیکن جب اس ملک پر انگریزوں نے حکمرانی شروع کی اور ان کا یہاں عمل دخل بڑھا تو انھوں نے اپنی بدنام زمانہ پالیسی (لڑاؤ اورحکومت کرو) کے تحت یہاں کے لوگوں میں باہمی منافرت اور تصادم پیدا کرنے کی غرض سے مسجد، مندر، جنم استھان وغیرہ کا خود ساختہ قضیہ چھیڑ دیا جس کے نتیجہ میں سنہ 1855 ٔ / 1272 ہجری میں ایودھیا کے اندر زبردست خونریزی ہوئی، جس کی تفصیلات منظرعام پر اس سے قبل لائی جا چکی ہے۔

اسی وقت سے اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاطر انگریزوں نے سب سے پہلے جنم استھان اور سیتا کی رسوئی کا افسانہ ترتیب دیا اور ایک بدھسٹ نجومی کو پہلے سے سکھا پڑھا کر ان دونوں مقامات کی جگہ معلوم کی، اس نے طے شدہ سازش کے مطابق دائرہ کھینچ کر بتادیا کہ جنم استھان اور سیتا کی رسوئی بابری مسجد سے متصل احاطہ کے اندر ہے، پھر اپنے زیر اثر ہندوؤں کو اکسایا کہ ان دونوں پوتر استھانوں کو حاصل کرو۔

نقی علی خاں جو نواب واجد علی کا خسر اور وزیر تھا، انگریزوں کی اس سازش میں ان کا مویٔد اور طرف دار تھا، اس نے اپنے اثر و رسوخ کےذریعہ ناعاقبت اندیش نواب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ بابری مسجد سے باہر مگر اس کے احاطہ کے اندر جنم استھان و سیتا کی رسوئی کے لیے جگہ دے دی جائے، چنانچہ مسجد کے مسقف حصہ کے بالمقابل احاطہ مسجد کی دیوار سے متصل داہنی سمت سیتا کی رسوئی کے لیے اور صحن مسجد سے باہر بائیں پورب کی جانب جنم استھان کے نام سے 21فٹ لمبی اور 17 فٹ چوڑی جگہ دے دی گئی، جس پر اسی وقت سے پوجا پاٹھ کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔

حالانکہ جس وقت یہ افسانہ مرتب کیا گیا اس سے برسہا برس پہلے سے قلب شہر میں جنم استھان کا مندر موجود تھا اور آج بھی موجود ہے۔ اس وقت مسجد اور جنم استھان کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کی غرض سے صحن مسجد کے ارد گرد آہنی سلاخوں کی باڑھ کھڑی کردی گئی۔

اسی تاریخ سے ایودھیا میں مذہبی کش مکش شروع ہوگئی اور یہاں کے ہندومسلم، مندر مسجد کے نام پر آپس میں دست گریباں ہوگئے۔

سنہ 1857ء میں جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے متحد ہوکر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا بگل بجایا، ضلع فیض آباد کے گزیٹر سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت باہمی اتفاق و یگانگت کو مستحکم کرنے کی غرض سے ایودھیا کے مسلم رہنما امیر علی اور ہندو رہنما بابا چرن داس نے رام جنم استھان اور بابری مسجد کے تنازعہ کو ہمیشہ کے واسطے ختم کرنے کی غرض سے ایک معاہدہ کیا کہ رام جنم استھان کی مخصوص متنازعہ اراضی ہندوؤں کے حوالہ کردی جائے اور ہندو بابری مسجد کی عمارت سے دست کش ہوجائیں۔

چنانچہ اس معاہدہ پر فریقین خوشی خوشی راضی ہوگئے اور دو سال سے اختلاف کی جو آگ بھڑک رہی تھی وہ ٹھنڈی ہوگئی، مگر انگریزوں کو یہ ہندومسلم اتحاد گوارہ نہ ہوا، انھوں نے بابارام چرن داس اور امیر علی دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر لٹکا کر پھانسی دےدی اور مندر مسجد کے نزاع کو از سر نو زندہ کرنے کی غرض سے متنازعہ رام جنم استھان اور بابری مسجد کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی، دونوں کے راستے بھی الگ الگ بنا دیے اور مسجد کے شمالی دروازہ سے مسجد میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔


نیز جذباتی ہندوؤں کو اکسایا کہ وہ اس تقسیم کو مسترد کرکے پوری مسجد پر دعویٰ کریں، اسی کے ساتھ مسلمانوں کو بھی برانگیختہ کیا کہ وہ مسجد کی اراضی کے اس بٹوارہ کو تسلیم نہ کریں چنانچہ یہ کشاکش پھر شروع ہوگئی جس کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا۔

مسجد کو مندر بنانے کی سازش 49/1948 ء میں کی گئی، جب کہ ملک فرقہ وارانہ تشدّد کی آگ میں جل رہا تھا، اور پورے بھارت میں افراتفری مچی ہوئی تھی 22/23 دسمبر 1949 ٔ کی درمیانی رات میں ہنومان گڑھی کے مہنت ابھے رام داس نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی جس کے خلاف اس وقت ڈیوٹی پر مقرر کانسٹیبل ماتو پرشاد نے صبح کو تھانہ میں حسب ذیل رپورٹ درج کرائی۔

ابھے رام داس، سدرشن داس اور پچاس ساٹھ نامعلوم لوگوں نے مسجد کے اندر مورتی استھاپت (نصب) کردیا ہے۔ جس سے پراَمن ماحول میں خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

اس رپورٹ کو بنیاد بناکر فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے دفعہ 145 کے تحت مسجد اوراس سے ملحق گنج شہیداں کو قرق کرکے مقفل کردیا اور پریہ دت رام چیرمین کو اس کی حفاظت کے لیے رسیور مقرر کردیا، نیز فریقین کے نام نوٹس جاری کیا گیا کہ اپنے اپنے دعویٰ پر ثبوت پیش کریں۔

سٹی مجسٹریٹ کا یہ غیرمنصفانہ عمل زبان حال سے بتارہا ہے کہ مسجد میں بت رکھنے کی کارروائی گہری سازش کے تحت عمل میں لائی گئی تھی۔

ورنہ ایک قدیم جمعہ وجماعت سے آباد مسجد کے بارے میں ثبوت طلب کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

حالاں کہ کرنا تویہ چاہیے تھا کہ ماتوپرشاد کانسٹیبل کی رپورٹ کے مطابق مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جاتی اور مسجد سے مورتی نکال کر اس مسئلہ کو ختم کردیا جاتا، مگر حیرت ہے کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه، مولانا ابوالکلام آزاد رحمة الله عليه اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمة الله عليه نے آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کو اس سنگین معاملہ پر توجہ دلائی اور انھوں نے یوپی کے وزیراعلیٰ گووند بلبھ پنت کو لکھا کہ اس مسئلہ کو فی الفور حل کریں۔

پھر بھی اس سلسلے میں کوئی مثبت کارروائی نہیں کی گئی، اور مذہبی جانبداری و اقتدار سیکولرزم اور قانون و انصاف پر غالب رہا۔

گویا ملک کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کا اولین صلہ آزاد ہونے کے بعد یہ دیا گیا کہ ان کی قدیم متبرک عبادت گاہ میں مورتیاں رکھ دی گئیں اور اس کے منبر ومحراب جو اب تک رکوع و سجود سے آباد تھے مقفل کردیے گئے۔

اس سانحہ کے بعد 16 جنوری 1950 ٔ کو گوپال سنگھ نامی ایک شخص نے ظہور احمد، حاجی محمد فائق، حاجی پھیکو، احمد حسن عرف اچھن، محمد سمیع، ڈی ایم سٹی مجسٹریٹ اور سرکار اترپردیش کو پارٹی بناکر یہ دعویٰ دائر کردیا کہ مسجد جنم استھان ہے، ہم یہاں پوجا پاٹھ کرتے ہیں مگر مسلمان اور ضلع حکام اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔

لہٰذا اس رکاوٹ کو ختم کرکے ہندؤں کو اس میں پوجا پاٹھ کی باضابطہ اجازت دی جائے، اس مقدمہ کے دائر ہونے کے تیسرے دن یعنی 19 جنوری 1950ء کو عدالت نے ایک حکم امتناعی کے ذریعہ ہندومسلمان دونوں کا داخلہ مسجد میں ممنوع قرار دے دیا پھر 13مارچ 1951ء میں عدالت نے پجاری کو مسجد کے اندر جاکر پوجا اور بھوگ کرنے کی اجازت دےدی، مگر مسلمان اپنی عبادت گاہ میں خدائے وحدہ لاشریک کا نام لینے سے محروم رہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جب ظلم و ناانصافی کو طاقت و حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوجاتی ہے تو آئین و قانون اور عدالت سب اس کے آگے سربسجود ہوجاتے ہیں۔

دعوی مذکورہ کی جواب دہی کرتے ہوئے فیض آباد کے ایس پی کرناسنگھ نے یکم جون 1950ء کو جو جواب دعویٰ عدالت میں داخل کیا اس میں لکھا تھا کہ زمانہ قدیم سے بابری مسجد مسجد ہے اس میں مسلمان ہمیشہ سے نماز پڑھتے چلے آرہے ہیں ہندوؤں کا اس سے کوئی واسطہ اور سروکار نہیں ہے۔

سنہ 1870ء تا 1900ء کی درمیانی مدت میں مولوی عبدالرشید نے امامت کے فرائض انجام دیے، 1901ء سے 1930ء کے عرصے میں یہ خدمت مولوی عبدالقادر کے سپرد رہی، اور 1930ء سے 1939ء مسجد کے قرق ہونے کی تاریخ تک مولوی عبدالغفار کی اقتداء میں مسلمان اس مسجد میں نماز پنج وقتہ اور جمعہ ادا کرتے تھے۔

تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ بابرکے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 935 ہجری/ 1528ء میں تعمیر کرائی تھی۔ 27مارچ 1932ء کو گئو کشی کے نام پر ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو نشانہ بناکر پہلی مرتبہ ہنگامہ برپا کیا تھا اور مسجد میں گھس کر ان بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی۔

بابری مسجد کے مصارف کے لیے عہد مغلیہ میں مبلغ ساٹھ روپیے سالانہ شاہی خزانے سے ملتے تھے، نوابان اودھ کے دور میں یہ رقم بڑھا کر تین سو دو روپیے تین آنہ چھ پائی کردی گئی تھی۔

برطانوی اقتدار میں بھی یہ رقم بحال رہی، پھر بندوبست اوّل کے وقت نقد کی بجائے دو گاؤں بھورن پور اور شولاپور متصل ایودھیا اس کے مصارف کے لیے دیے گئے، غرض کہ اپنی ابتداء تعمیر 935ہجری/1528 ٔ سے1369ہجری/1949 تک یہ مسجد بغیر کسی نزاع و اختلاف کے مسجد ہی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک مقدس و محترم عبادت گاہ رہی اور مسلمان امن وسکون کے ساتھ اس میں اپنی مذہبی عبادت ادا کرتے تھے۔

مستند تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے صدیوں قبل مسلمان ایودھیا میں آباد تھے، اور یہاں کے ہندو مسلم پوری یک جہتی اور یگانگت کے ساتھ رہتے سہتے تھے۔

سنہ 1855 ٔ / 1272 ہجری سے پہلے کسی مذہبی معاملہ میں یہاں کے باشندوں کے درمیان نہ تو کوئی تنازعہ رونما ہوا اور نہ باہمی ٹکراؤ کی نوبت آئی ہو۔ صحیح تاریخوں اور مذہبی نوشتوں سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

لیکن جب اس ملک پر انگریزوں نے حکمرانی شروع کی اور ان کا یہاں عمل دخل بڑھا تو انھوں نے اپنی بدنام زمانہ پالیسی (لڑاؤ اورحکومت کرو) کے تحت یہاں کے لوگوں میں باہمی منافرت اور تصادم پیدا کرنے کی غرض سے مسجد، مندر، جنم استھان وغیرہ کا خود ساختہ قضیہ چھیڑ دیا جس کے نتیجہ میں سنہ 1855 ٔ / 1272 ہجری میں ایودھیا کے اندر زبردست خونریزی ہوئی، جس کی تفصیلات منظرعام پر اس سے قبل لائی جا چکی ہے۔

اسی وقت سے اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاطر انگریزوں نے سب سے پہلے جنم استھان اور سیتا کی رسوئی کا افسانہ ترتیب دیا اور ایک بدھسٹ نجومی کو پہلے سے سکھا پڑھا کر ان دونوں مقامات کی جگہ معلوم کی، اس نے طے شدہ سازش کے مطابق دائرہ کھینچ کر بتادیا کہ جنم استھان اور سیتا کی رسوئی بابری مسجد سے متصل احاطہ کے اندر ہے، پھر اپنے زیر اثر ہندوؤں کو اکسایا کہ ان دونوں پوتر استھانوں کو حاصل کرو۔

نقی علی خاں جو نواب واجد علی کا خسر اور وزیر تھا، انگریزوں کی اس سازش میں ان کا مویٔد اور طرف دار تھا، اس نے اپنے اثر و رسوخ کےذریعہ ناعاقبت اندیش نواب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ بابری مسجد سے باہر مگر اس کے احاطہ کے اندر جنم استھان و سیتا کی رسوئی کے لیے جگہ دے دی جائے، چنانچہ مسجد کے مسقف حصہ کے بالمقابل احاطہ مسجد کی دیوار سے متصل داہنی سمت سیتا کی رسوئی کے لیے اور صحن مسجد سے باہر بائیں پورب کی جانب جنم استھان کے نام سے 21فٹ لمبی اور 17 فٹ چوڑی جگہ دے دی گئی، جس پر اسی وقت سے پوجا پاٹھ کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔

حالانکہ جس وقت یہ افسانہ مرتب کیا گیا اس سے برسہا برس پہلے سے قلب شہر میں جنم استھان کا مندر موجود تھا اور آج بھی موجود ہے۔ اس وقت مسجد اور جنم استھان کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کی غرض سے صحن مسجد کے ارد گرد آہنی سلاخوں کی باڑھ کھڑی کردی گئی۔

اسی تاریخ سے ایودھیا میں مذہبی کش مکش شروع ہوگئی اور یہاں کے ہندومسلم، مندر مسجد کے نام پر آپس میں دست گریباں ہوگئے۔

سنہ 1857ء میں جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے متحد ہوکر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا بگل بجایا، ضلع فیض آباد کے گزیٹر سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت باہمی اتفاق و یگانگت کو مستحکم کرنے کی غرض سے ایودھیا کے مسلم رہنما امیر علی اور ہندو رہنما بابا چرن داس نے رام جنم استھان اور بابری مسجد کے تنازعہ کو ہمیشہ کے واسطے ختم کرنے کی غرض سے ایک معاہدہ کیا کہ رام جنم استھان کی مخصوص متنازعہ اراضی ہندوؤں کے حوالہ کردی جائے اور ہندو بابری مسجد کی عمارت سے دست کش ہوجائیں۔

چنانچہ اس معاہدہ پر فریقین خوشی خوشی راضی ہوگئے اور دو سال سے اختلاف کی جو آگ بھڑک رہی تھی وہ ٹھنڈی ہوگئی، مگر انگریزوں کو یہ ہندومسلم اتحاد گوارہ نہ ہوا، انھوں نے بابارام چرن داس اور امیر علی دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر لٹکا کر پھانسی دےدی اور مندر مسجد کے نزاع کو از سر نو زندہ کرنے کی غرض سے متنازعہ رام جنم استھان اور بابری مسجد کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی، دونوں کے راستے بھی الگ الگ بنا دیے اور مسجد کے شمالی دروازہ سے مسجد میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔


نیز جذباتی ہندوؤں کو اکسایا کہ وہ اس تقسیم کو مسترد کرکے پوری مسجد پر دعویٰ کریں، اسی کے ساتھ مسلمانوں کو بھی برانگیختہ کیا کہ وہ مسجد کی اراضی کے اس بٹوارہ کو تسلیم نہ کریں چنانچہ یہ کشاکش پھر شروع ہوگئی جس کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا۔

مسجد کو مندر بنانے کی سازش 49/1948 ء میں کی گئی، جب کہ ملک فرقہ وارانہ تشدّد کی آگ میں جل رہا تھا، اور پورے بھارت میں افراتفری مچی ہوئی تھی 22/23 دسمبر 1949 ٔ کی درمیانی رات میں ہنومان گڑھی کے مہنت ابھے رام داس نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی جس کے خلاف اس وقت ڈیوٹی پر مقرر کانسٹیبل ماتو پرشاد نے صبح کو تھانہ میں حسب ذیل رپورٹ درج کرائی۔

ابھے رام داس، سدرشن داس اور پچاس ساٹھ نامعلوم لوگوں نے مسجد کے اندر مورتی استھاپت (نصب) کردیا ہے۔ جس سے پراَمن ماحول میں خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

اس رپورٹ کو بنیاد بناکر فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے دفعہ 145 کے تحت مسجد اوراس سے ملحق گنج شہیداں کو قرق کرکے مقفل کردیا اور پریہ دت رام چیرمین کو اس کی حفاظت کے لیے رسیور مقرر کردیا، نیز فریقین کے نام نوٹس جاری کیا گیا کہ اپنے اپنے دعویٰ پر ثبوت پیش کریں۔

سٹی مجسٹریٹ کا یہ غیرمنصفانہ عمل زبان حال سے بتارہا ہے کہ مسجد میں بت رکھنے کی کارروائی گہری سازش کے تحت عمل میں لائی گئی تھی۔

ورنہ ایک قدیم جمعہ وجماعت سے آباد مسجد کے بارے میں ثبوت طلب کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

حالاں کہ کرنا تویہ چاہیے تھا کہ ماتوپرشاد کانسٹیبل کی رپورٹ کے مطابق مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جاتی اور مسجد سے مورتی نکال کر اس مسئلہ کو ختم کردیا جاتا، مگر حیرت ہے کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه، مولانا ابوالکلام آزاد رحمة الله عليه اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمة الله عليه نے آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کو اس سنگین معاملہ پر توجہ دلائی اور انھوں نے یوپی کے وزیراعلیٰ گووند بلبھ پنت کو لکھا کہ اس مسئلہ کو فی الفور حل کریں۔

پھر بھی اس سلسلے میں کوئی مثبت کارروائی نہیں کی گئی، اور مذہبی جانبداری و اقتدار سیکولرزم اور قانون و انصاف پر غالب رہا۔

گویا ملک کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کا اولین صلہ آزاد ہونے کے بعد یہ دیا گیا کہ ان کی قدیم متبرک عبادت گاہ میں مورتیاں رکھ دی گئیں اور اس کے منبر ومحراب جو اب تک رکوع و سجود سے آباد تھے مقفل کردیے گئے۔

اس سانحہ کے بعد 16 جنوری 1950 ٔ کو گوپال سنگھ نامی ایک شخص نے ظہور احمد، حاجی محمد فائق، حاجی پھیکو، احمد حسن عرف اچھن، محمد سمیع، ڈی ایم سٹی مجسٹریٹ اور سرکار اترپردیش کو پارٹی بناکر یہ دعویٰ دائر کردیا کہ مسجد جنم استھان ہے، ہم یہاں پوجا پاٹھ کرتے ہیں مگر مسلمان اور ضلع حکام اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔

لہٰذا اس رکاوٹ کو ختم کرکے ہندؤں کو اس میں پوجا پاٹھ کی باضابطہ اجازت دی جائے، اس مقدمہ کے دائر ہونے کے تیسرے دن یعنی 19 جنوری 1950ء کو عدالت نے ایک حکم امتناعی کے ذریعہ ہندومسلمان دونوں کا داخلہ مسجد میں ممنوع قرار دے دیا پھر 13مارچ 1951ء میں عدالت نے پجاری کو مسجد کے اندر جاکر پوجا اور بھوگ کرنے کی اجازت دےدی، مگر مسلمان اپنی عبادت گاہ میں خدائے وحدہ لاشریک کا نام لینے سے محروم رہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جب ظلم و ناانصافی کو طاقت و حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوجاتی ہے تو آئین و قانون اور عدالت سب اس کے آگے سربسجود ہوجاتے ہیں۔

دعوی مذکورہ کی جواب دہی کرتے ہوئے فیض آباد کے ایس پی کرناسنگھ نے یکم جون 1950ء کو جو جواب دعویٰ عدالت میں داخل کیا اس میں لکھا تھا کہ زمانہ قدیم سے بابری مسجد مسجد ہے اس میں مسلمان ہمیشہ سے نماز پڑھتے چلے آرہے ہیں ہندوؤں کا اس سے کوئی واسطہ اور سروکار نہیں ہے۔

Intro:Body:

ERGTR


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.