رفتہ رفتہ وقت کا سیلاب بڑھتا ہی گیا،
میں کھنکیوں سے اپنے مکان کو ڈوبتا دیکھا کیا!
انہوں نے بات چیت کا آغاز اس شعر کے ساتھ کیا، انہوں نے صاف طور پر کہا کہ ملک میں امن و امان خطرے میں ہے۔ موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بات تو امن وامان کی ہو رہی ہے، لیکن لوگوں کو نفرت کی آگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔
انہوں جھارکھنڈ کے تبریز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے 'جئے شری رام' کا نعرہ لگوایا گیا اور پھر پیٹا گیا جس کے بعد اس کی موت ہو گئی لیکن پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کو اس پر کوئی درد نہیں ہوا، نہ ہی صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے اس پر کوئی رد عمل دیا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ سماجی انصاف کی بات کرنے والی پارٹیاں ایسے حالات پر کچھ کیوں نہیں کر رہی ہے؟ تو اس پر ان کا جواب تھا کہ اس مسئلہ پر صرف لال پرچم والے یعنی کمیونسٹ پارٹی کے لوگ ہی آواز بلند کریں گے اور کوئی بولنے والا بھی نہیں ہے۔
وہیں بدعنوانی پر بھی حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم بد عنوانی سے لڑنے کی بات تو کرتے ہیں، لیکن آندھرا پردیش کے جن چار راجیہ سبھا کے رکن پارلیمان کو بی جے پی میں شامل کیا گیا ہے ان پر بھی بدعنوانی کے الزام ہیں اس کا کیا؟
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سماجی انصاف کی بات کرنے والی پارٹیاں اکثریت کے دباو میں ہے۔ اس پر بھی انہوں نے دو ٹوک میں کہا کہ افسوس ہے کہ امبیڈکر، لوہیا اور نہرو جی کی بات کرنے والی پارٹیاں اس مسئلہ پر بھی خاموش ہے۔
بائیں محاذ کی پارٹیاں عوامی مسائل سے کیوں دور ہیں، کیا کمیونزم فیل ہو گیا ہے؟
اس پر انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ملک میں کمیونزم فیل نہیں ہوا ہے، بلکہ کمیونزم تو آیا ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کمیونزم کے عوامی مسائل سے دور ہونے کی بات کو سرے خارج کر دیا اور کہا کہ کمیونزم آج بھی انصاف اور مظلوموں کے حق میں سب سے زیادہ احتجاج اور مظاہرہ کر رہے ہیں۔
مغربی بنگال کی صورت حال پر انہوں نے کہا کہ جب مسجد کے اماموں اور ناظموں کو تنخواہ دی جائیں گی تو بی جے پی اسے مسئلہ بناکر پیش کرے گی ہی۔ انہوں مغربی بنگال میں اپنی پارٹی کے شکست سے صاف انکار کر دیا ۔
واضح رہے لوک سبھا انتخابات میں ان کی پارٹی مغربی بنگال میں ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔