ETV Bharat / bharat

گلوبل وارمنگ جلد ہی زمین کو شعلوں میں بدل دے گی

author img

By

Published : Feb 11, 2020, 8:34 AM IST

Updated : Feb 29, 2020, 10:50 PM IST

چین اور امریکہ کا عالمی سطح پر ہونے والے کوئلہ کے اخراج میں چالیس فیصد حصہ ہے۔حالانکہ کاربن اخراج کے حوالے سے بھارت بہتر(4.5فیصد)ہے لیکن اسکے باوجود ہم نے کبھی خود کو ضابطوں کے تحت لانے کی کوشش نہیں کی ہے۔

گلوبل وارمنگ جلد ہی زمین کو شعلوں میں بدل دے گی
گلوبل وارمنگ جلد ہی زمین کو شعلوں میں بدل دے گی

عالمی سطح پر مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور بدلتے ہوئے موسمی حالات دنیا بھر میں مہلک آفات کا سبب بن رہے ہیں جبکہ ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم (ورلڈ اکانومک فورم)کے اجلاس میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے تئیں آنکھیں بند کرنے سے ماحولیات کے حوالے سے انکی غیر ذمہ داری نظر آتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیشن گوئیوں کو رد کرتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ ایک کھرب درخت لگانے ،انہیں بحال کرنے اور انہیں تحفظ دینے کی پہل میں شامل ہوگا۔موسمیات کے نوجوان کارکن ، گریٹا تھن برگ،کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق انتباہ کے بعد عالمی قائدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حقیقت پسندانہ لائحہ عمل مرتب کریں۔حالانکہ نوجوان نسل نے ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے لاپرواہی کا اظہار کرنے کیلئے امریکی صدر کی کھلی تنقید کی تاہم ایسا لگتا ہے کہ فرسٹ ورلڈ نیشنز کہلانے والے ممالک ،یعنی امریکہ ،مغربی یورپ اور انکے اتحادی ،اس جانب کان نہیں دھرتے ہیں۔

امریکہ تشویشناک طور پر یہ سوچتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے خلاف مشترکہ جنگ میں اسے کوئی کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس سے قبل امریکہ کیوٹو پروٹوکول کو چھوڑ چکا ہے۔حالانکہ اوبامہ حکومت نے پیرس معاہدہ پر دستخط تو کیے تھے لیکن ٹرمپ نے امریکہ کا صدر بننے کے بعد اس معاہدہ سے ہاتھ کھینچ لیا اورخود امریکی شہریوں کے احتجاج کے باوجود وہ اس فیصلے پر قائم رہے۔
متحدہ ریاست ہائے امریکہ، کنیڈا، روس اور برازیل اس میں پیچھے ہے،عالمی اقتصادی فورم کی (سبز پہل گرین انیشیٹیو)کی حمایت کرکے محض اپنی خفت مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔

موسمی حالات میں تیزی سے آنے والے بربادی کے پیچھے کارفرما وجوہات میں غیر مستحکم ترقیاتی منصوبے، لاپرواہی سے کی جانے والی صنعت کاری اور ایندھن جلانے کے نتیجے میں گرین ہاوس گیسز کا اخراج شامل ہے۔اس طرح عالمی سطح پر درجہ حرارت متواتر بڑھ رہا ہے، آلودگی پیدا ہوتی ہے، وبائیں پھیلتی ہیں، خوراک کی قلت پیدا ہوتی ہے اور آفات آتی ہیں۔

چین اور امریکہ کا عالمی سطح پر ہونے والے کوئلہ کے اخراج میں چالیس فیصد حصہ ہے۔حالانکہ کاربن اخراج کے حوالے سے بھارت بہتر(4.5فیصد)ہے لیکن اسکے باوجود ہم نے کبھی خود کو ضابطوں کے تحت لانے میں لیت و لعل نہیں کیا ہے۔ایسے ممالک، جو عملاَ دنیا میں آگ لگارہے ہیں، اپنے حرکتوں کی کوئی پرواہ کرتے نہیں دکھائی دیتے ہیں۔
ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا کے ممالک ہر سال 10 ہزار کروڑ ٹن قدرتی وسائل خرچ کرتے ہیں جبکہ یہ تعداد اگلی تین دہائیوں میں 18 ہزار 400 کروڑ ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔اسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں قدرتی وسائل کے فی کس اخراجات دس گنا زیادہ ہیں۔

نائٹرس آکسائڈ جیسے صنعتی اخراج سے ماحول کو نقصان پہنچنے والا عمل سو سال سے جاری ہے۔امریکہ، چین اور یورپ، جو نائٹرس آکسائڈ کے اخراج میں سب سے آگے ہیں یہ ممالک اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دار رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم میں موسمی خدشات کونظرانداز کرکے تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تابوت میں آخری کیل ہی ٹھوک دی ہے۔

امریکی صدر کی طرف سے موسمیاتی تبدیلی کو معمولی قرار دینے کی اتاولی کوششوں کے باوجود جاری موسمی المیے اپنا رونا رو رہے ہیں۔سہارا ریگستان میں برفباری، امریکہ میں منفی 40سیلسیس کا درجہ حرارت، بار بار آرہے سیلاب، طوفان، زلزلے، قحط اور مون سون جیسے سبھی واقعات گلوبل وارمنگ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

سمندری ساحلوں اور نشیبی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کو پگھلتے گلیشروں اور سمندروں میں پانی کی بڑھتی ہوئی سطح سے واضح خطرہ لاحق ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کی رائے ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین جلد ہی آگ کا گولہ بن سکتی ہے۔امریکہ، جنوبی افریقہ، ایشیائ،یورپ اور آسٹریلیا میں گذشتہ ایک سال کے دوران ہوئے پندرہ شدید حادثوں کے پیچھے موسمی تبدیلیوں کا کردار دیکھا گیا ہے۔

امیزان جنگلوں اور آسٹریلیا کے جھاڑیوں دار جنگلوں میں تباہ کن آگ لگنے کے واقعات گلوبل وارمنگ کی تازہ مثال ہے۔ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کا سلسلہ جاری رہا اور اس کا تدارک نہ ہوا تو کئی قسم کے پودے، جیسے مونگ پھلی، کیلے، کافی اور آلو، معدوم ہوجائیں گے جبکہ فصلوں کی پیداوار میں بھی شدید کمی ہوجائے گی۔

خطرے کی ان گھنٹیوں کے بجنے کے باوجود اقوامِ متحدہ کی حالیہ موسمی تبدیلی کانفرنس ،سی او پی25، میں کوئی قابلِ عمل حل سامنے نہیں آیا ہے اور نہ کوئی معاہدہ ہوا ہے۔جب تک ترقی یافتہ ممالک موسمی تبدیلی کے خلاف مشترکہ جنگ کی جانب اقدام نہیں کرتے، انسانی تہذیب کا مستقبل مسلسل غیر یقینیت کا شکار رہے گا۔

عالمی سطح پر مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور بدلتے ہوئے موسمی حالات دنیا بھر میں مہلک آفات کا سبب بن رہے ہیں جبکہ ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم (ورلڈ اکانومک فورم)کے اجلاس میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے تئیں آنکھیں بند کرنے سے ماحولیات کے حوالے سے انکی غیر ذمہ داری نظر آتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیشن گوئیوں کو رد کرتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ ایک کھرب درخت لگانے ،انہیں بحال کرنے اور انہیں تحفظ دینے کی پہل میں شامل ہوگا۔موسمیات کے نوجوان کارکن ، گریٹا تھن برگ،کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق انتباہ کے بعد عالمی قائدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حقیقت پسندانہ لائحہ عمل مرتب کریں۔حالانکہ نوجوان نسل نے ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے لاپرواہی کا اظہار کرنے کیلئے امریکی صدر کی کھلی تنقید کی تاہم ایسا لگتا ہے کہ فرسٹ ورلڈ نیشنز کہلانے والے ممالک ،یعنی امریکہ ،مغربی یورپ اور انکے اتحادی ،اس جانب کان نہیں دھرتے ہیں۔

امریکہ تشویشناک طور پر یہ سوچتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے خلاف مشترکہ جنگ میں اسے کوئی کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس سے قبل امریکہ کیوٹو پروٹوکول کو چھوڑ چکا ہے۔حالانکہ اوبامہ حکومت نے پیرس معاہدہ پر دستخط تو کیے تھے لیکن ٹرمپ نے امریکہ کا صدر بننے کے بعد اس معاہدہ سے ہاتھ کھینچ لیا اورخود امریکی شہریوں کے احتجاج کے باوجود وہ اس فیصلے پر قائم رہے۔
متحدہ ریاست ہائے امریکہ، کنیڈا، روس اور برازیل اس میں پیچھے ہے،عالمی اقتصادی فورم کی (سبز پہل گرین انیشیٹیو)کی حمایت کرکے محض اپنی خفت مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔

موسمی حالات میں تیزی سے آنے والے بربادی کے پیچھے کارفرما وجوہات میں غیر مستحکم ترقیاتی منصوبے، لاپرواہی سے کی جانے والی صنعت کاری اور ایندھن جلانے کے نتیجے میں گرین ہاوس گیسز کا اخراج شامل ہے۔اس طرح عالمی سطح پر درجہ حرارت متواتر بڑھ رہا ہے، آلودگی پیدا ہوتی ہے، وبائیں پھیلتی ہیں، خوراک کی قلت پیدا ہوتی ہے اور آفات آتی ہیں۔

چین اور امریکہ کا عالمی سطح پر ہونے والے کوئلہ کے اخراج میں چالیس فیصد حصہ ہے۔حالانکہ کاربن اخراج کے حوالے سے بھارت بہتر(4.5فیصد)ہے لیکن اسکے باوجود ہم نے کبھی خود کو ضابطوں کے تحت لانے میں لیت و لعل نہیں کیا ہے۔ایسے ممالک، جو عملاَ دنیا میں آگ لگارہے ہیں، اپنے حرکتوں کی کوئی پرواہ کرتے نہیں دکھائی دیتے ہیں۔
ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا کے ممالک ہر سال 10 ہزار کروڑ ٹن قدرتی وسائل خرچ کرتے ہیں جبکہ یہ تعداد اگلی تین دہائیوں میں 18 ہزار 400 کروڑ ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔اسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں قدرتی وسائل کے فی کس اخراجات دس گنا زیادہ ہیں۔

نائٹرس آکسائڈ جیسے صنعتی اخراج سے ماحول کو نقصان پہنچنے والا عمل سو سال سے جاری ہے۔امریکہ، چین اور یورپ، جو نائٹرس آکسائڈ کے اخراج میں سب سے آگے ہیں یہ ممالک اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دار رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم میں موسمی خدشات کونظرانداز کرکے تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تابوت میں آخری کیل ہی ٹھوک دی ہے۔

امریکی صدر کی طرف سے موسمیاتی تبدیلی کو معمولی قرار دینے کی اتاولی کوششوں کے باوجود جاری موسمی المیے اپنا رونا رو رہے ہیں۔سہارا ریگستان میں برفباری، امریکہ میں منفی 40سیلسیس کا درجہ حرارت، بار بار آرہے سیلاب، طوفان، زلزلے، قحط اور مون سون جیسے سبھی واقعات گلوبل وارمنگ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

سمندری ساحلوں اور نشیبی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کو پگھلتے گلیشروں اور سمندروں میں پانی کی بڑھتی ہوئی سطح سے واضح خطرہ لاحق ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کی رائے ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین جلد ہی آگ کا گولہ بن سکتی ہے۔امریکہ، جنوبی افریقہ، ایشیائ،یورپ اور آسٹریلیا میں گذشتہ ایک سال کے دوران ہوئے پندرہ شدید حادثوں کے پیچھے موسمی تبدیلیوں کا کردار دیکھا گیا ہے۔

امیزان جنگلوں اور آسٹریلیا کے جھاڑیوں دار جنگلوں میں تباہ کن آگ لگنے کے واقعات گلوبل وارمنگ کی تازہ مثال ہے۔ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کا سلسلہ جاری رہا اور اس کا تدارک نہ ہوا تو کئی قسم کے پودے، جیسے مونگ پھلی، کیلے، کافی اور آلو، معدوم ہوجائیں گے جبکہ فصلوں کی پیداوار میں بھی شدید کمی ہوجائے گی۔

خطرے کی ان گھنٹیوں کے بجنے کے باوجود اقوامِ متحدہ کی حالیہ موسمی تبدیلی کانفرنس ،سی او پی25، میں کوئی قابلِ عمل حل سامنے نہیں آیا ہے اور نہ کوئی معاہدہ ہوا ہے۔جب تک ترقی یافتہ ممالک موسمی تبدیلی کے خلاف مشترکہ جنگ کی جانب اقدام نہیں کرتے، انسانی تہذیب کا مستقبل مسلسل غیر یقینیت کا شکار رہے گا۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 10:50 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.